قَالَ إِنَّكَ مِنَ الْمُنظَرِينَ
اللہ نے کہا، بے شک تجھے مہلت (10) دے دی گئی
تو اللہ تعالیٰ نے اسے دنیا کے فنا ہونے کے دن تک کی مہلت دے دی جیسا کہ سورۃ حجر آیات (37/38) میں آیا ہے : یہاں : وقت معلوم سے فنائے دنیا مراد ہے ، ابلیس کا مقصد اولاد آدم کی کثیر ترین تعداد کو گمراہ کرنا تھا تاکہ آدم (علیہ السلام) سےا نتقام لے سکے جن کی وجہ سے وہ اللہ تعالیٰ کی رحمت سے دور کردیا گیا اور جب اللہ نے اس کی طلب مان لی تو عناد وتمرد میں اور آگے بڑھ کر کہا کہ جب تو نے مجھے گمراہ کر ہی دیا ہے تو اب ان انسانوں کو میں چین سے نہیں رہنے دوں گا، ان کے درپے ہوجاؤں گا، اور انہیں تیری سیدھی راہ ( دین اسلام) سے گمراہ کروں گا انہیں ہر طرف سے گھیر لوں گا، بھلائی سے روکوں گا، اور برائی کو خوبصورت بناکر پیش کروں گا۔ تاکہ وہ سرکشی پر اتر آئیں۔ اور پھر نتیجہ یہ ہوگا کہ ان میں سے اکثر لوگ نا شکری کریں گے، تیری عبادت نہیں کریں گے، اور عقیدہ توحید پر قائم نہیں رہیں گے، اور حکمت الہی دیکھیئے کہ ابلیس کا یہ ظن اور وہم واقعہ کے مطابق ہوگیا کہ اکثر و بیشتر انسانوں نے اس کی اتباع کی جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے سورۃ سبا کی آیت (20) میں فرمایا ہے : اور ابلیس نے بنی آدم کے بارے میں اپنا گمان سچ کر دکھا یا، پس مؤمنوں کی ایک جماعت کے سوا سب نے اس کی پیروی کی، اسی لیے نبی کریم (ﷺ) نے شیطان سے تمام جہات سے پناہ مانگنے کی تعلیم دی ہے،، امام احمد، ابوداؤد، نسائی، ابن حبان اور حاکم نے عبداللہ بن عمر (رض) سے روایت کی ہے کہ رسول اللہ (ﷺ) درج ذیل دعا صبح وشام کبھی بھی نہیں چھوڑ تے تھے۔( اللهم إنى أسألك العفو والعافية في ديني ودنياى وأهلي ومالي، اللهم استر عوراتي، وآمن روعاتي، واحفظني مِنْ بَيْنِ يَدَيَّ وَمِنْ خَلْفِي وَعَنْ يَمِينِي وعن شمالي ومن فوقي، وأعوذ بك اللهم أن أغتال من تحتي ) اس دعا میں رسول اللہ ﷺ نے اللہ کے ذریعہ مردود شیطانوں کے شر سے ہر طرف سے پناہ مانگا ہے۔