وَلَقَدْ خَلَقْنَاكُمْ ثُمَّ صَوَّرْنَاكُمْ ثُمَّ قُلْنَا لِلْمَلَائِكَةِ اسْجُدُوا لِآدَمَ فَسَجَدُوا إِلَّا إِبْلِيسَ لَمْ يَكُن مِّنَ السَّاجِدِينَ
اور ہم نے تمہیں پیدا کیا، پھر تمہاری صورت بنائی، پھر فرشتوں سے کہا کہ آدم کو سجدہ کرو، تو ابلیس کے علاوہ سبھوں نے سجدہ کیا، وہ سجدہ کرنے والوں میں سے نہ ہوسکا
(8) اللہ تعالیٰ نے آدم (علیہ السلام) کی قدرو منزلت اور ان کی فضیلت بیان کرنے کے بعد بنی آدم کو تنبیہ کی ہے کہ ان کا سب سے بڑا دشمن ابلیس ہے جو آدم کی ابتدائے آفر ینش سے ہی ان کے اور ان کی اولاد کے خلاف حسد کی آگ میں جلتا رہا ہے، اور انہیں دینی اور دنیاوی طور پر نقصان پہنچا نے کی ہر ممکن کوشش کرتا رہا ہے، اس لیے اس سے بچنا لازم ہے۔ آیت میں : خلقنا کم "جمع کا صیغہ استعمال کیا گیا ہے اور مراد آدم (علیہ السلام) ہیں، جمع صیغہ اس اعتبار سے ہے کہ وہ تمام بنی نوع انسان کے باپ ہیں، اللہ تعالیٰ نے آدم (علیہ السلام) کو اپنے ہاتھ سے مٹی سے بنایا اور انسان کی شکل دے کر اس میں روح پھو نکی، تو تمام فرشتوں کو (رب العالیمن کی تعظیم شان کے لیے) اس کا سجدہ کرنے کا حکم دیا، چنا چہ سب نے بات مانی اور اطاعت کی، لیکن ابلیس نے سجدہ کرنے سے انکار کردیا تو اللہ تعالیٰ نے سوال کیا کہ میں جب تجھے سجدہ کرنے کا حکم دیا تھا تو کس چیز نے تجھے روک دیا تو ابلیس لعین نے ( عذر گناہ کے طور پر) کہا کہ میں تو اس سے افضل ہوں، تو مجھ کو اسے سجدہ کرنے کا حکم کیسے دیتا ہے ؟! مجھے تو نے آگ سے پیدا کیا ہے، اور آگ مٹی سے اشرف ہوتی ہے۔ قابل غور بات یہ ہے کہ ابلیس نے آگ اور مٹی کے عناصر پر نظر رکھی اور بھول گیا کہ اللہ نے آدم کو اپنے ہاتھ سے بنایا ہے اور اس میں اپنی روح پھونکی ہے، اس نے نص صریح کہ تم لوگو اس کے لیے سجدہ میں گر جاؤ، کے مقابلے میں قیاس فاسد سے کام لیا۔ اور سجدہ کا منکر ہوگیا تو اللہ تعالیٰ کی رحمت سے دور کردیا گیا، اور اس کا یہ دعوی بھی غلط تھا کہ آگ مٹی سے اشرف ہے، کیونکہ مٹی کی فطرت میں سنجیدگی، بردباری، سوچ اور ٹھہراؤ ہے مٹی میں انواع وقسام کے پودے اگتے ہیں، اس میں انسانوں اور حیوانات کی روزی پیدا ہوتی ہے، اس کے برعکس آگ چیزوں کو جلادیتی ہے، اور اس میں طیش اور تیزی کی صفت پائی جاتی ہے ، اور یہی وجہ ہے کہ ابلیس کو آگ نے دھوکہ دیا، اور آدم (علیہ السلام) نے( مٹی سے بنے ہونے کی وجہ سے) اللہ کے سامنے خشوع و خضوع سے کام لیا، اور اپنے گناہ کا اعتراف کر کے توبہ واستغفار کی راہ اختیار کی۔