وَالْوَزْنُ يَوْمَئِذٍ الْحَقُّ ۚ فَمَن ثَقُلَتْ مَوَازِينُهُ فَأُولَٰئِكَ هُمُ الْمُفْلِحُونَ
اور اس دن اعمال کا وزن (6) کیا جانا برحق ہے، پس جن کے اعمال کا پلہ بھاری ہوگا وہی لوگ فلاح پانے والے ہوں گے
(6) انبیاء و رسل اور افراد اور جماعتوں سے سوال کئے جانے، اور انہیں ان کے اعمال کی خبر دینے کے بعد اللہ تعالیٰ قیامت کے دن میزان (ترازو) قائم کرے گا تاکہ بندوں کے اعمال وزن کرے، جس کی نیکیوں کا پلڑا بھا ری ہو کر جھک جائے گا وہ جہنم سے نجات پائے گا اور جنت میں داخل ہوگا، اور جس کا پلڑا نیکیوں کی کمی اور گناہوں کی کثرت کی وجہ سے ہلکا ہو کر اوپر اٹھ جائے گا اسے ہمیشہ کے لیے جہنم میں ڈال دیا جائے گا۔ اس آیت کریمہ میں اور دیگر کئی آیتوں میں اللہ تعالیٰ نے خبر دی ہے کہ وہ قیامت کے دن بندوں کے اعمال کو وزن کرے گا، اور اس کا قول برحق ہے، اس لیے معتز لہ کے علاوہ جمہور امت کا اس پر ایمان ہے، لیکن وزن کی کیفیت کے بارے میں اختلاف ہے، بعض کہتے ہیں کہ اعمال کے صحیفے حقیقی معنوں میں وزن کئے جائیں گے، جیسا کہ صحیح حدیث میں آیا ہے، کہ لا الہ الااللہ کا پر چہ ننانوے رجسٹروں سے بھاری ہوجائے گا، اس حدیث کو امام احمد ابن ماجہ اور حاکم وغیر ہم نے روایت کی ہے، شوکانی نے اسی کر ترجیح دیا ہے۔ بعض کا خیال ہے کہ خود اعمال وزن کئے جائیں گے اگر وہ بغیر جسم کے ہوں گے تو اللہ انہیں اس دن جسم دے دے گا تاکہ ان کا وزن ہو سکے جیسا کہ قرآن کریم کے بارے میں سنن ابن ماجہ میں مروی صحیح حدیث میں آیا ہے، کہ وہ قیامت کے دن خوبصورت نوجوان کی شکل میں آئے گا، بعض لوگوں نے کہا ہے کہ خود صاحب اعمال کا وزن ہوگا، جیسا کہ صحیح بخاری میں ابو ہریرہ (رض) سے مروی ہے کہ قیامت کے دن ایک موٹے آدمی کو لایا جائے گا جو اللہ کے نزدیک مچھر کے ایک پر کے برابر بھی نہیں ہوگا۔ حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ کہتے ہیں، بہت ممکن ہے کہ وزن کی یہ ساری صورتیں صحیح ہوں۔ کبھی اعمال کا وزن ہوگا، تو کبھی صحیفوں کا اور کبھی خود صاحب اعمال کا، اللہ تعالیٰ ہر چیز پر قادر ہے، اور پیمائش ووزن کے جدید سائنسی وسائل وذرائع کو مد نظر رکھتے ہوئے اب تو انسانی عقل اس کو قبول کرنے کے لیے بالکل تیار ہے، اب تو ہواؤں، فضاؤں اور غیر مرئی اشیاء کو وزن کیا جا رہا ہے تو خالق کا ئنات اور قادر مطلق کے لیے یہ کون سا تعجب کی بات ہے کہ وہ قیامت کے دن ہر چیز کو وزن کرے اور بندوں کو ان کے نیک اعمال کا حساب چکائے۔