وَحَاجَّهُ قَوْمُهُ ۚ قَالَ أَتُحَاجُّونِّي فِي اللَّهِ وَقَدْ هَدَانِ ۚ وَلَا أَخَافُ مَا تُشْرِكُونَ بِهِ إِلَّا أَن يَشَاءَ رَبِّي شَيْئًا ۗ وَسِعَ رَبِّي كُلَّ شَيْءٍ عِلْمًا ۗ أَفَلَا تَتَذَكَّرُونَ
اور ان کی قوم نے ان سے جھگڑنا (75) شروع کردیا، انہوں نے کہا، کیا تم مجھ سے اللہ کے بارے میں جھگڑتے ہو، حالانکہ اس نے مجھے سیدھی راہ دکھائی ہے، اور میں ان معبودوں سے نہیں ڈرتا (76) ہوں جنہیں تم اللہ کا شریک ٹھہراتے ہو، مگر یہ کہ میرے رب کی ہی کوئی مشیت ہو، میرے رب کا علم ہر چیز کو اپنے گھیرے میں لیے ہوئے ہے، کیا تم لوگ نصیحت نہیں حاصل کرتے ہو
(75) ابراہیم (علیہ السلام) کی قوم نے اپنے مشرکانہ عقائد کی تائید اور ان کی دعوت توحید کی تردید میں کبھی انہیں دھمکی دی اور کبھی لچر دلیلوں کے ذریعہ اپنی بات منوانی چاہی، تو ابراہیم (علیہ السلام) نے ان کا جواب دیتے ہوئے فرمایا کہ کیا تم مجھ سے اس بارے میں منا ظرہ کرنا چاہتے ہو کہ اللہ کا کوئی شر یک و مثیل نہیں ؟ توحید باری تعالیٰ پر تو حجت قائم کرچکا، اور اس بات کی قطعی طور پر نفی ہوچکی کہ اللہ کے سوا کوئی دوسرا بھی لائق عبادت ہے، اس لیے کہ کامل صرف اللہ کی ذات ہے، اور اس کے علاہ تمام چیزیں ناقص ہیں، اور کوئی ناقص معبود نہیں ہوسکتا۔ (76) مشر کوں نے ابراہیم (علیہ السلام) کے یہ کہہ کر خوف دلایا کہ کہیں ان کے معبودوں کا غضب نہ ان پر نازل ہوجائے، اور وہ کسی مصیبت میں نہ مبتلا ہوجائیں، تو ان کے جواب میں ابراہیم (علیہ السلام) نے یہ کہا کہ میں تمہارے معبودوں سے نہیں ڈرتا، کیونکہ وہ تو بے جان جمادات ہیں، وہ نفع یا نقصان نہیں پہنچا سکتے۔ حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ لکھتے ہیں : ابراہیم (علیہ السلام) نے ان سے کہا کہ تمہارے قول کے باطل ہونے کی دلیل یہ ہے کہ یہ بالکل بے اثر ہیں، اس لیے میں ان سے نہ ڈرتا ہوں اور نہ ہی ان کی پرواہ کرتا ہوں، اگر ان کے بس میں کچھ ہے تو کر گذریں اور مجھے مہلت نہ دیں، اس کے بعد ابراہیم (علیہ السلام) نے کہا کہ ہاں، اگر میرا رب چاہے گا ان کی جانب سے کوئی تکلیف پہنچ سکتی ہے جو محض اللہ کی جانب سے ہوگا، تمہارے معبودوں کا اس میں دخل نہ ہوگا۔