فَوَيْلٌ لِّلَّذِينَ يَكْتُبُونَ الْكِتَابَ بِأَيْدِيهِمْ ثُمَّ يَقُولُونَ هَٰذَا مِنْ عِندِ اللَّهِ لِيَشْتَرُوا بِهِ ثَمَنًا قَلِيلًا ۖ فَوَيْلٌ لَّهُم مِّمَّا كَتَبَتْ أَيْدِيهِمْ وَوَيْلٌ لَّهُم مِّمَّا يَكْسِبُونَ
پس خرابی ہے ان لوگوں کے لئے جو اپنے ہاتھ سے کتاب لکھ (١٢٥) لیتے ہیں، پھر کہتے ہیں کہ یہ اللہ کی طرف سے ہے، تاکہ اس کے بدلے کچھ مال حاصل کریں، پس ان کے لئے خرابی ہے، اپنے ہاتھوں سے لکھی ہوئی (کتاب) کے سبب، ان کے لئے خرابی ہے ان کی اپنی کمائی کے سبب
125: علمائے یہود کے لیے وعید کا ذکر ہورہا ہے جو تورات کی آیات اور اس کے احکام کو دنیا کی حقیر متاع کی خاطر بدل دیتے تھے، اور تحریف کردہ کلام کے بارے میں لوگوں کو باور کراتے تھے کہ یہ اللہ کا کلام ہے، اور اپنی ان حرکتوں کی وجہ سے ناجائز طور پر لوگوں پر دو قسم کا ظلم کرتے تھے، ان کا دین بدل دیتے تھے، اور ان کا مال بھی ناجائز طور پر کھاجاتے تھے، اسی لیے آیت میں دو بار ان کے لیے ویل کا ذکر آیا ہے، ویل ہے ان کے لیے، اس لیے کہ انہوں نے تورات کو بدلا، اور ویل ہے ان کے لیے اس لیے کہ لوگوں کا مال ناجائز طریقے پر کھا جاتے تھے۔ شیخ الاسلام ابن تیمیہ (رح) کہتے ہیں کہ اگرچہ اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں ان یہود علماء کی مذمت کی ہے جو تورات کی آیات کو بدل دیتے تھے لیکن دین اسلام آنے کے بعد ان لوگوں کو بھی شامل ہے جو بدعتوں کو صحیح ثابت کرنے کے لیے قرآن و سنت میں تحریف کرتے ہیں۔ اس میں ان یہود کی مذمت کی گئی ہے جو تورات کا علم نہیں رکھتے تھے صرف ان کے پاس چند بے بنیاد تمنائیں تھیں، اور اب اس میں وہ لوگ بھی شامل ہیں جو قرآن کریم میں غور وفکر نہیں کرتے صرف حروف کی تلاوت کرتے ہیں، اور وہ لوگ بھی شامل ہیں جو دنیاوی مقاصد حاصل کرنے کے لیے قرآن کریم کے خلاف کوئی دوسری بات اپنے ہاتھ سے لکھ کر لوگوں میں رائج کرتے ہیں، اور کہتے ہیں کہ یہ اللہ کی شریعت اور اللہ کا دین ہے، اور وہ لوگ بھی شامل ہیں جو قرآن و سنت کو چھپاتے ہیں، تاکہ ان کا مخالف حق بات پر ان سے استدلال نہ کرے۔