قُلْ هُوَ الْقَادِرُ عَلَىٰ أَن يَبْعَثَ عَلَيْكُمْ عَذَابًا مِّن فَوْقِكُمْ أَوْ مِن تَحْتِ أَرْجُلِكُمْ أَوْ يَلْبِسَكُمْ شِيَعًا وَيُذِيقَ بَعْضَكُم بَأْسَ بَعْضٍ ۗ انظُرْ كَيْفَ نُصَرِّفُ الْآيَاتِ لَعَلَّهُمْ يَفْقَهُونَ
آپ کہئے کہ وہی اس پر قادر (60) ہے کہ تم پر تمہارے اوپر سے یا تمہارے پاؤں کے نیچے سے کوئی عذاب بھیج دے، یا مختلف ٹولیاں بنا کر تمہیں آپس میں الجھا دے اور ایک دوسرے کے ساتھ جنگ کا مزا چکھا دے، آپ دیکھ لیجئے کہ ہم اپنی نشانیاں کس طرح مختلف انداز میں بیان کرتے ہیں، تاکہ انہیں بات سمجھ میں آجائے
(60) یعنی اے میرے رسول ﷺ جن مشر کین نے وعدہ کیا تھا کہ وہ مصیبت سے نجات پانے کے بعد اللہ کے شکر گزار بندے بن جائیں گے، لیکن اپنا وعدہ بھول گئے اور پھر شرک کرنے لگے ،۔ آپ ان لوگوں سے کہہ دیجئے کہ اللہ کے عذاب سے امان محسوس کرنے کی کوئی وجہ نہیں، اس لیے کہ وہ تو ہر وقت اور ہر حال میں مختلف قسم کے عذاب میں مبتلا کرنے پر قادر ہے، وہ چاہے گا تو آگ یا پتھروں کی بارش بر سا دے گا، یا آسمان کو ہی تمہارے سر پر گرادے گا، یا چاہے گا تو کوئی طوفان بھیج دے گا یا زمین میں دھنسا دے گا یا تمہیں مختلف ٹولیوں میں بانٹ دے گا، اور پھر تم آپس میں ایک دوسرے کو قتل کرتے رہو گے۔ بخاری نے جابر (رض) سے روایت کی ہے کہ جب یہ آیتنازل ہوئی تو رسول اللہ (ﷺ) نے کہا ( أعوذ بوجهك) اس کے بعد جب آیت کا یہ حصہ نازل ہوا تو آپ نے دبارہ ( أعوذ بوجهك) کہا پھر جب نازل ہو اتو آپ نے کہا : یہ زیادہ آسان ہے۔ مسلم نے سعد بن ابی وقاص (رض) سے روایت کی ہے کہ ایک دن ہم رسول اللہ (ﷺ) کے ساتھ ایک قریبی بستی سے آرہے تھے، تو بنی معاویہ کی مسجد کے پاس سے گذرے، آپ نے مسجد میں داخل ہو کر دورکعت نماز پڑھی، اور ہم نے بھی آپ کے ساتھ نماز پڑھی، آپ نے بڑی لمبی دعا کی، پھر ہماری طرف مڑکر فرمایا میں نے اپنے رب سے تین چیزیں مانگی تھیں تو اس نے مجھے دو عطا کیں اور ایک کو روک دیا، میں نے اپنے رب سے مانگا کہ میری امت کو قحط سا لی سے ہلاک نہ کرے، تو اس نے مجھے دیا، اور میں نے اپنے رب سے سوال کیا کہ میری امت آپس میں ایک دوسرے کے درپے نہ ہو، تو اس دعا کو روک دیا ،