قُل لَّوْ أَنَّ عِندِي مَا تَسْتَعْجِلُونَ بِهِ لَقُضِيَ الْأَمْرُ بَيْنِي وَبَيْنَكُمْ ۗ وَاللَّهُ أَعْلَمُ بِالظَّالِمِينَ
آپ کہئے کہ جس چیز کے لیے تم جلدی (56) کر رہے ہو اگر وہ میرے پاس ہوتی، تو میرے اور تمہارے درمیان معاملہ کا فیصلہ ہوچکا ہوتا، اور اللہ ظالموں کو زیادہ جانتا ہے
(56) مزید تاکید کے طور پر کہا گیا کہ اے مشرکین مکہ ! تم جس عذاب کے لے جلدی کررہے ہو اگر وہ میرے اختیار میں ہوتا تو میں نے بھی جلدی کی ہوتی اور اللہ کے حکم سے تم پر عذاب نازل ہوچکا ہوتا، اللہ تعالیٰ ظالموں کو خوب جانتا ہے اور ان کی رسی اس لیے ڈھیل دی گئی ہے تاکہ کفر وشرک میں اور آگے بڑھتے جائیں اور شدید عذاب کے مستحق بنیں۔ بخاری ومسلم نے عائشہ (رض) سے روایت کی ہے کہ نبی (ﷺ) نے عقبہ کے دن ابن عبد یا لیل کو اسلام کی دعوت دی لیکن اس نے انکار کردیا، تو آپ کو بہت زیادہ ملال ہوا، اور غم سے نڈھال ہو کر ایک طرف چل پڑے جب قرن منازل پہنچے (جو مکہ سے ایک دن ایک رات کی مسافت پر واقع ہے) تو جبرائیل آئے اور کہا کہ آپ کی قوم نے آپ کو جو تکلیف پہنچائی ہے اس کی وجہ سے اللہ نے پہاڑوں کا فرشتہ بھیجا، آپ چاہیں تو وہ مشرکین مکہ کو دو پہاڑوں کے درمیان کچل ڈالے، تو رسول اللہ (ﷺ) نے کہا میں امید کرتاہوں کہ اللہ ان کی اولاد میں صرف ایک اللہ کی عبادت کرنے والوں کی پیدا کرے گا۔ اس حدیث کا اس آیت سے کوئی تعارض نہیں ہے، اس لیے کہ آیت میں یہ ہے کہ اگر عذاب نازل کرنا رسول اللہ (ﷺ) کے اختیار میں ہوتا تو جس وقت مشرکین عذاب کے لیے جلدی کر رہے تھے، عذاب آہی جاتا، اور حدیث میں یہ نہیں ہے کہ عبد یا لیل اور دیگر مشرکین نے جلدی عذاب آجانے کا سوال کیا تھا، بلکہ پہاڑوں کے فرشتہ نے پیش کش کی تھی تو رسول اللہ (ﷺ) نے اللہ سے ان کے لیے نرمی چاہی، اور امید ظاہر کی کہ اللہ ان کی اولاد میں مؤحدین کو پیدا کرے گا۔