وَلَا تَطْرُدِ الَّذِينَ يَدْعُونَ رَبَّهُم بِالْغَدَاةِ وَالْعَشِيِّ يُرِيدُونَ وَجْهَهُ ۖ مَا عَلَيْكَ مِنْ حِسَابِهِم مِّن شَيْءٍ وَمَا مِنْ حِسَابِكَ عَلَيْهِم مِّن شَيْءٍ فَتَطْرُدَهُمْ فَتَكُونَ مِنَ الظَّالِمِينَ
اور آپ ان لوگوں کو نہ بھگائیے (51) جو صبح و شام اپنے رب کو پکارتے ہیں، اس کی خوشنودی چاہتے ہیں، آپ کو ان کا حساب نہیں دینا ہے، اور نہ انہیں آپ کا حساب دینا ہے، پس آپ انہیں اگر بھگا دیں گے تو ظالموں میں سے ہوجائیں گے
(51) امام مسلم نے سعد بن ابی وقاص (رض) سے، اور امام عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے اس آیت کریمہ کے شان نزول کے بارے میں روایت کی ہے کہ رسول اللہ (ﷺ) کی مجلس میں کچھ ضعیف اور کمزور قسم کے صحا بہ مو جود تھے (روایتوں میں سعد بن وقاص، عبد اللہ بن مسعود۔ بلال، صہیب، عمار اور خباب ر ضی اللہ عنہم وغیر ہم کے نام آئے ہیں) وہاں سے قریش کے کچھ لوگوں کا گذر ہوا، تو انہوں نے کہا اے محمد ! کیا تم نے اپنی قوم کے بدلے انہیں کو اپنا لیا ہے، کیا اللہ نے ہمیں چھوڑ کر ان پر احسان کردیا ہے، کیا ہم ان کے تابع بن جائیں ؟ اگر تم انہیں مجلس سے نکال دو تو شاید ہم تمہاری اتباع کریں۔ تو یہ آیت ناز ہوئی۔ اور اللہ تعالیٰ نے نبی کریم (ﷺ) کو غریب اور کمزور مسلمانوں کو اپنی مجلس سے اس لالچ میں بھگانے سے منع کیا کہ قریش کے بڑے لوگ آپ کی مجلس میں آئیں گے، اور آپ کی باتیں سن کر متا ثر ہوں گے اور ایمان لائیں گے۔ سعید بن مسیب وغیرہ نے "صبح وشام "سے فرض نمازیں مراد لی ہیں، آیت کے آخر میں اللہ نے فرمایا کہ اگر آپ نے ان کمزور صحابہ کو اپنی مجلس سے بھگا دیا تو ظالموں میں سے ہوجائیں گے۔