قُل لِّمَن مَّا فِي السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ ۖ قُل لِّلَّهِ ۚ كَتَبَ عَلَىٰ نَفْسِهِ الرَّحْمَةَ ۚ لَيَجْمَعَنَّكُمْ إِلَىٰ يَوْمِ الْقِيَامَةِ لَا رَيْبَ فِيهِ ۚ الَّذِينَ خَسِرُوا أَنفُسَهُمْ فَهُمْ لَا يُؤْمِنُونَ
آپ پوچھئے کہ آسمانوں اور زمین میں جو کچھ ہے وہ کس کا (14) ہے، آپ کہہ دیجئے کہ اللہ کا ہے، اس نے رحمت (15) کو اپنے اوپر لازم کرلیا ہے، وہ بے شک تم سب کو قیامت کے دن اکٹھا (16) کرے گا، جس کے آنے میں کوئی شبہ نہیں ہے، جن لوگوں نے (ایمان و عمل کے اعتبار سے) اپنا خسارہ (17) کرلیا، وہ ایمان نہیں لائیں گے۔
(14) نبی کریم (ﷺ) کو حکم دیا کہ آپ کافروں سے پوچھئے کہ آسمانوں اور زمین کا مالک کون ہے، اور اس سوال کا مقصد ڈانٹ اور پھٹکارہے، پھر اللہ نے آپ (ﷺ) کو حکم دیا کہ آپ خود ہی جواب دے دیجئے کہ اللہ کے علاہ اور کون ہوسکتا ہے اور یہ جواب کافروں کو بھی معلوم ہے اس میں کسی کا اختلاف نہیں ہے۔ (15) یہ جملہ بھی رسول اللہ (ﷺ) کی زبانی ادا کیا گیا یعنی آپ یہ بھی کہہ دیجئے کہ اللہ اپنے بندوں پر رحم کرتا ہے، توبہ واستغفار کو قبول کرتا ہے، اور سزا دینے میں جلدی نہیں کرتا، اور عقاب وغضب کے احکام قرآن میں بیان ہوئے ہیں ان کا تعلق بندوں کے اعمال سے ہے، اور اسی صفت رحمت کا تقاضا تھا کہ اللہ نے انسانوں کو فطرت سلیم دیا، اپنی معرفت وتوحید کی طرف ان کی رہنمائی کی، انبیاء بھیجے اور کتابیں نازل کیں صحیحین کی روایت ہے۔ اللہ نے فرمایا کہ بے شک میری رحمت میرے غضب پر غالب ہے "(16) اللہ تعالیٰ نے اپنی کمال الوہیت اور کمال رحمت بیان کرنے کے بعد، آیت کے اس حصہ میں نبی کریم (ﷺ) کی زبانی یہ خبر دی ہے کہ رحمت الہی کا تقاضا یہ بھی ہے کہ اللہ انہیں دنیا میں مہلت دے گا اور انہیں بالکل ختم نہیں کرے گا لیکن قیامت کے دن ان سب کو اکھٹا کرے گا اور ان کرتوتوں پر ان کا محاسبہ کرے گا۔ (17) یہ جملہ اللہ تعالیٰ کی زبانی ہے اور اس میں کافروں کی بدترین حالت کو بیان کیا گیا ہے کہ جب لوگوں نے اپنی پونجی ضائع کردی جن کی فطرت مسخ ہوگئی اور جنہوں نے عقل سلیم کھودی اور رسول اللہ (ﷺ) کی حیات بابرکات اور نزول وحی سے فائدہ نہیں اٹھا یا ایسے لوگ قیامت پر ایمان نہیں لائیں گے اور نہ اس دن کے برے انجام سے وہ ڈریں گے۔