هُوَ الَّذِي خَلَقَكُم مِّن طِينٍ ثُمَّ قَضَىٰ أَجَلًا ۖ وَأَجَلٌ مُّسَمًّى عِندَهُ ۖ ثُمَّ أَنتُمْ تَمْتَرُونَ
اسی نے تمہیں مٹی سے پیدا (3) کیا، پھر (موت کا) ایک وقت مقرر کردیا، اور اس کے نزدیک (دوبارہ اٹھائے جانے کا) ایک اور مقررہ وقت ہے، پھر تم اس میں شبہ (4) کرتے ہو
(3) شرک باللہ کا بطلان کرنے کے بعد بعث بعد الموت کے انکار کی تردید کی جارہی ہے، اگرچہ آسمان وزمین کی تخلیق پر قادرہونا بعث بعد الموت پر قادر ہونے کی بڑی دلیل ہے لیکن چونکہ محل نزاع انسان کا دوبارہ زندہ کیا جانا ہے، اسی لیے ان کی ابتدائی تخلیق سے استدلال کرنا زیادہ مناسب رہا، اور یہاں بنی نوع انسان کی تخلیق مٹی سے بتائی گئی ہے، اس اعتبار سے کہ تمام انسان حضرت آدم کی اولاد ہیں اور آدم مٹی سے پیدا کیے گئے تھے، تو گویا ہر انسان کی تخلیق میں آدم کی تخلیق کا جز وموجود ہے، یا اس اعتبار سے کہ وہ نطفہ جس سے انسان وجود میں آتا ہے وہ مٹی سے بنا ہوا ہوتا ہے۔ آیت میں پہلے' اجل "سے مراد موت، اور دوسرے "اجل"سے مراد روز قیامت ہے اور "عندہ "سے مراد یہ ہے کہ روز قیامت کا علم صرف اللہ کو ہی ہے۔ (4 ) یعنی اپنی ابتدائے تخلیق اور انتہائے تخلیق کا مشاہدہ کرنے کے باجود، بعث بعد الموت کے عقیدہ میں کیسے شبہ کرتے ہو۔