يَوْمَ يَجْمَعُ اللَّهُ الرُّسُلَ فَيَقُولُ مَاذَا أُجِبْتُمْ ۖ قَالُوا لَا عِلْمَ لَنَا ۖ إِنَّكَ أَنتَ عَلَّامُ الْغُيُوبِ
اللہ تعالیٰ جب (روزِ قیامت) تمام رسولوں (132) کو جمع کرے گا، تو ان سے پوچھے گا کہ تمہیں (تمہاری دعوت حق کا قوموں کی طرف سے) کیا جواب ملا، تو (خوف و دہشت کے مارے صرف اتنا) کہیں گے کہ ہمیں کوئی خبر نہیں، بے شک تو ہی تمام غیبی امور کا جاننے والا ہے ہے
(132) اس آیت کریمہ میں اللہ تعالیٰ نے اپنے مؤمن بندوں کو قیامت کی ہو لنا کیوں سے ڈرایا ہے اس دن اور تو اور انبیاء کرام کا حال یہ ہوگا کہ جب اللہ تعالیٰ ان سے پوچھے گا کہ ان کی قوموں کی طرف سے انہیں کیا جواب ملا۔ تو رعب ودہشت کا یہ عالم ہوگا کہ ان کا جواب جانتے ہوئے بھی اس کا علم اللہ کے حوالے کردیں گے، اور جب انبیاء ورسل کا یہ حال ہوگا، تو دوسروں کا کیا حال ہوگا، اور دوسرے کب جرات کریں گے کہ وہ اللہ سے بات کریں، علماء نے لکھا ہے کہ مجہول کا صیغہ ہے استعمال کیا گیا ہے یعنی "تمہیں کیا جواب دیا گیا "اللہ نے یہ نہیں کہا کہ " ان قوموں نے تمہیں کیا جواب دیا " اس میں اس طرف اشارہ ہے کہ اس دن اللہ تعالیٰ انتہائی درجہ غضبناک ہوگا، صحیح بخاری کی روایت ہے کہ میرا رب اس دن اتنا غضبناک ہوگا کہ نہ اس سے پہلے کبھی اتنا ہوا تھا اور نہ اس کے بعد۔ فخرالدین رازی لکھتے ہیں : قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ کا طریقہ ہے کہ مختلف قسم کے شرائع واحکام بیان کرنے کے بعد عقائد والہیات، احوال انبیاء، یا احوال قیامت کی بات کرتا ہے، اور اس سے مقصود ان مذکورہ احکام وشرائع کی تاکید وہ توفیق ہوتی ہے، اس آیت کریمہ کی بھی یہی حیثیت ہے کہ مختلف الانواع احکام و شرائع بیان کرنے کے بعد اللہ نے قیامت کی ہولناکیوں کو بیان کرنا شروع کیا ہے