يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا عَلَيْكُمْ أَنفُسَكُمْ ۖ لَا يَضُرُّكُم مَّن ضَلَّ إِذَا اهْتَدَيْتُمْ ۚ إِلَى اللَّهِ مَرْجِعُكُمْ جَمِيعًا فَيُنَبِّئُكُم بِمَا كُنتُمْ تَعْمَلُونَ
اے ایمان والو ! تم اپنے بچاؤ کی فکر (130) کرو، اگر تم راہ راست پر چلتے رہو گے، تو کسی دوسرے کی گمراہی تمہیں نقصان نہیں پہنچائے گی، تم سب کو اللہ کے پاس ہی لوٹ کر جانا ہے، پس وہ تمہیں تمہارے کیے کی خبر دے گا
(130) اندھی تقلید اورمہلک بد عت کی خطر ناکیوں کو بیان کرنے بعد بھی دلا یا جاتاکہ آدمی اگر راہ ہدایت پر گامزن ہے اور امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا فریضہ حتی المقدوراداکررہا ہے، تو دوسرے کی گمراہی کا بال اس کے سر نہیں آئے گا اس لیے کہ روز قیامت کوئی کسی دوسرے کا بوجھ نہیں اٹھائے گا، اور ہر شخص کو اس کے اپنے کیے کا بدلہ ملے گا۔ دوسروں کا گناہ اس کے سر نہیں ڈالا جائے گا، اس آیت کریمہ میں اسی مفہوم کو واضح کیا گیا ہے، لیکن اس کا یہ ہرگز مفہوم نہیں ہے کہ مسلمان پر امر بالمعروف اور نہی عن المنکر واجب نہیں ہے۔ اصحاب سنن نے روایت کی ہے کہ ابو بکر (رض) نے حمد وثنا کے بعد کہا : اے لوگو ! تم یہ آیت پڑھتے ہو، اور اس کا غلط مفہوم سمجھتے ہو میں نے تو رسول اللہ ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) کو کہتے ہوئے سنا ہے کہ جب لوگ برائی کو دیکھیں گے اور اسے نہیں بد لیں گے تو قریب ہے کہ اللہ کا عذاب ان سب کو آدبو چے گا۔ ابو ثعلبہ خشنی کی ایک اور روایت سے (جسے ترمذی نے روایت کی ہے) ثابت ہوتا ہے کہ اس آیت سے مراد وہ مسلمان ہیں جو آخری زمانہ میں آئیں گے، کہ جب ہر شخص اپنی خواہش کا بندہ ہوگا، دنیا کو دین پر ترجیح دے گا اور ہر آدمی اپنی رائے پر خوش ہوگا، رسول اللہ ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) نے اس زمانہ کے مسلمانوں کو نصیحت کی ہے کہ جب ایسا زمانہ آجائے تو عوام الناس کو چھوڑکر اپنی فکر میں لگ جاؤ، اس آیت کی ابتداء میں ہے کہ ابو ثعلبہ نے رسول اللہ ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) سے اس حدیث کے بارے میں پوچھا تو آپ نے فرمایا کہ ہاں، بھلائی کا حکم دو اور برائی سے روکو، یہاں تک کہ وہ زمانہ آجائے جس کا ذکر اوپر آچکا ہے۔