سورة المآئدہ - آیت 101

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَسْأَلُوا عَنْ أَشْيَاءَ إِن تُبْدَ لَكُمْ تَسُؤْكُمْ وَإِن تَسْأَلُوا عَنْهَا حِينَ يُنَزَّلُ الْقُرْآنُ تُبْدَ لَكُمْ عَفَا اللَّهُ عَنْهَا ۗ وَاللَّهُ غَفُورٌ حَلِيمٌ

ترجمہ تیسیر الرحمن لبیان القرآن - محمد لقمان سلفی

اے ایمان والو ! تم لوگ ایسی چیزوں کے بارے میں سوال (25) نہ کرو کہ اگر وہ تمہارے سامنے ظاہر کردی جائیں تو تمہیں (ذہنی طور پر) تکلیف پہنچائیں، اور اگر تم ان کے بارے میں نزول قرآن کے زمانے میں پوچھو گے (126) تو تمہارے سامنے ظاہر کردی جائیں گی، اللہ نے گذشتہ سوالات کو معاف کردیا، اور اللہ بڑا مغفرت کرنے والا، بڑا برداشت کرنے والا ہے

تفسیرتیسیرارحمٰن - محمد لقمان سلفی

(اس آیت کریمہ میں اللہ تعالیٰ نے اپنے مؤمن بندوں کو اللہ اور اس کے رسول (ﷺ) کے ساتھ ایک تشریعی ادب کی تعلیم دی ہے، اور انہیں ایسے سوالات کے نے سے منع فرمایا ہے جن میں بظا ہر کوئی فائدہ نہ ہو اور خواہ مخواہ کی کرید سے منع کیا ہے اس لیے کہ بسا اوقات ایسے غیر ضروری سوالات کے جواب میں ایسی باتیں سننی پڑتی ہیں جن سے آدمی کو تکلیف ہوتی ہیں، روایات میں آتا ہے کہ بعض صحابہ کرام رسول اللہ (ﷺ) سے غیر ضروری سوالات کرتے تھے، اور آپ (ﷺ) کو ذہنی تکلیف ہوتی تھی، اس آیت کریمہ میں اس قسم کے تمام سوالات سے منع کیا گیا ہے بخاری و مسلم نے انس بن مالک (رض) سے روایت کی ہے کہ ایک بار رسول اللہ (ﷺ) خطبہ دے رہے تھے، ایک آدمی نے پوچھا کہ میرا رب کون ہے ؟ تو آپ (ﷺ) نے کہا : فلاں آدمی تو یہ آیت نازل ہوئی بعض روایتوں میں آیا ہے کہ اس صحا بی کا نام عبداللہ بن حذافہ تھا۔ امام احمد، ترمذی، اور ابن ماجہ وغیر ہم نے علی بن ابی طالب (رض) سے روایت کی ہے کہ جبİوَلِلَّهِ عَلَى النَّاسِ حِجُّ الْبَيْتِ مَنِ اسْتَطاعَ إِلَيْهِ سَبِيلاً Ĭنازل ہوئی، جس میں اللہ تعالیٰ نے حج کی فرضیت کا اعلان کیا ہے۔ تو بعض لوگوں نے پوچھا کہ یا رسول اللہ ! کیا یہ حکم ہر سال کے لیے ہے؟ تو آپ خاموش رہے، ان لوگوں نے دوبارہ پوچھا کہ کیا یہ حکم ہر سال کے لیے ہے ؟ تو آپ نے کہا کہ نہیں لیکن اگر میں ہاں کہہ دیتا تو یہ حکم ہر سال کے لیے واجب ہوجاتا اور جب واجب ہوجاتا تو تم لوگ اس پر عمل نہ کرپاتے اس کے بعد یہ آیت نازل ہوئی۔ صحیحین میں سعد بن وقاص (رض) سے مروی ہے کہ مسلمانوں میں سب سے بڑا مجرم وہ ہے جس نے کسی ایسی چیز کے بارے میں سوال کیا جو پہلے سے حرام نہیں تھی، اور اس کے اس سوال کرنے کی وجہ سے حرام کردی گئی ایک دوسری حدیث صحیحین میں ابو ہریرہ (رض) سے مروی ہے کہ رسول اللہ (ﷺ) نے فرمایا : میں جب تک تمہیں چھوڑے رکھوں تم لوگ بھی مجھے چھوڑے رکھو، کیونکہ تم سے پہلے کے لوگوں کو ان کے کثرت سوال اور انبیاء کی مخالفت نے ہلاک کیا تھا۔ (126) اللہ تعالیٰ نے غیر ضروری سوالات سے منع فرمانے کے بعد یہاں یہ بات کہی ہے کہ اگر قرآن کی کوئی آیت اترنے کے بعد تمہارے ذہنوں میں اس سے متعلق سوال آئے تو ہمارے رسول اللہ (ﷺ) اس کا جواب دیں گے اور آیت کی تشریح کریں گے حافظ ابن القیم رحمہ اللہ نے یہ مفہوم بیان کیا ہے اور اس سے یہ شبہ بھی زائل ہوجاتا ہے کہ مطلق سوال سے منع کردیا گیا تھا یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ انقطاع وحی کے بعد کسی ایسی وحی کا نزول توبند ہوگیا جس سے سوال کرنے والوں کے تکلیف ہو، لیکن خواہ مخواہ کے سوالات کرنا اسلام میں اچھی بات نہیں مانی گئی ہے، ایک حدیث میں ہے کہ آدمی کے اسلام میں اچھا ہونے کی علامت یہ ہے کہ وہ غیر ضروری باتوں سے پر ہیز کرے۔ (ترمذی ابن ماجہ) İ عَفَا اللَّهُ عَنْهاĬ یعنی ماضی میں جو کچھ بیان نہیں کیا ہے انہیں اللہ نے معاف کردیا ہے اگر اللہ چاہتا تو انہیں بھی بیان کرکے تم پر واجب کردیتا۔