جَعَلَ اللَّهُ الْكَعْبَةَ الْبَيْتَ الْحَرَامَ قِيَامًا لِّلنَّاسِ وَالشَّهْرَ الْحَرَامَ وَالْهَدْيَ وَالْقَلَائِدَ ۚ ذَٰلِكَ لِتَعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ يَعْلَمُ مَا فِي السَّمَاوَاتِ وَمَا فِي الْأَرْضِ وَأَنَّ اللَّهَ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيمٌ
اللہ نے بیت حرام کعبہ کو لوگوں (121) کے انتظامی اور معاشی امور کے لیے مفید بنایا ہے، اور حرمت والے مہینے اور قربانی کے جانور اور ان جانوروں کو بھی ان کے لیے مفید بنایا ہے جن کے گلے میں حرم تک پہنچنے کے لیے پٹے ڈال دئیے گئے ہوں، ایسا اس لیے کیا گیا تاکہ تم جان لو کہ بے شک اللہ آسمانوں اور زمین کی ہر بات جانتا ہے، اور اللہ ہر چیز کا پورا علم رکھنے والا ہے
( 121) آیت کریمہ میں الناس سے دور جاہلیت کے عرب مراد ہیں، اللہ تعالیٰ نے کعبہ کو جو "بیت حرام"ہے عربوں کے لیے دنیوی اور دینی فوائد ومصالح کا بہت بڑا ذریعہ بنایا تھا، حدود حرم میں داخل ہوجانے والا ہر خوف سے امن میں آجاتا تھا وہاں کمزور کی مدد کی جاتی تھی، ان کی تجارت میں نفع ہوتا تھا اور عبادت گذار وہاں سکون قلب کے ساتھ عبادت میں لگا رہتا تھا اور ہر قسم کے پھل دوسرے شہروں سے وہاں پہنچتے تھے۔ شہر حرام سے مراد رجب ذی القعدہ، ذی الحجہ اور محرم چار مہینے ہیں، ان مہینوں میں عرب اپنے دشمنوں سے انتقام لینے کے لیے قتال نہیں کرتے تھے ان مہینوں کی حرمت کا پاس رکھتے تھے اور ھدی کے جانور اور قلادہ پہنائے ہوئے اونٹوں کو بھی اللہ نے ان کے لیے امن کا ذریعہ بنا دیا تھا، اس لیے کہ جو شخص ھدی " کا عام جانور یا قلادہ پہنا ہوا اونٹ لے کر یا خود اپنی گردن میں قلادہ ڈال کر حرم کی طرف روانہ ہوتا تھا وہ مامون ہوجاتا تھا راستہ میں کوئی اس سے تعرض نہیں کرتا تھا، اللہ تعالیٰ نے عربوں کو فائدہ پہنچانے اور ان سے ضرر اور نقصان کو دور کرنے کے لیے یہ سارے اسباب اس وقت مہیا کیے تھے جبکہ ان کی کوئی حکومت نہیں تھی نہ کوئی نطم ونسق تھا، ہر شخص اور ہر قبیلہ بے لگام تھا، یہ اس بات کی یقینی دلیل ہے کہ اللہ تعالیٰ آسمان وزمین کی تمام اشیاء کو ان کے وقوع پذیر ہونے کے پہلے سے جانتا ہے اور جو کچھ قیامت تک ہوگا اسے بھی جانتا ہے