سورة المآئدہ - آیت 82

لَتَجِدَنَّ أَشَدَّ النَّاسِ عَدَاوَةً لِّلَّذِينَ آمَنُوا الْيَهُودَ وَالَّذِينَ أَشْرَكُوا ۖ وَلَتَجِدَنَّ أَقْرَبَهُم مَّوَدَّةً لِّلَّذِينَ آمَنُوا الَّذِينَ قَالُوا إِنَّا نَصَارَىٰ ۚ ذَٰلِكَ بِأَنَّ مِنْهُمْ قِسِّيسِينَ وَرُهْبَانًا وَأَنَّهُمْ لَا يَسْتَكْبِرُونَ

ترجمہ تیسیر الرحمن لبیان القرآن - محمد لقمان سلفی صاحب

آپ مسلمانوں کے سب سے بڑے دشمن (107) یہود اور اہل شرک کو پائیں گے، اور مسلمانوں کے سب سے قریبی دوست ان لوگوں کو پائیں گے جنہوں نے کہا کہ ہم نصاری ہیں، یہ اس لیے کہ ان میں کچھ علماء تارک دنیا عبادت گذار ہوتے ہیں، اور وہ کبر و غرور نہیں کرتے ہیں

تیسیر الرحمن لبیان القرآن - محمد لقمان السلفی رحمہ اللہ

107۔ اللہ تعالیٰ نے نبی کریم ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) کو خبر دی ہے کہ یہود اور مشرکین دوسرے لوگوں کی بہ نسبت مسلمانوں کی عداوت میں زیادہ سخت ہیں۔ یہود نے ان سے اس لیے عداوت کی کہ مسلمان عیسیٰ (علیہ السلام) اور محمد ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) دونوں پر ایمان لے آئے، اور اس لیے کہ حق کا انکار اور دعاۃ اور دعوت الی اللہ سے دشمنی انہیں وراثت میں ملی تھی، بہت سے انبیاء کو قتل کیا، اور کئی بار نبی کریم ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) کو بھی قتل کرنے کی سازش کی، لیکن ہر بار اللہ نے ان کی سازش کو ناکام بنا دیا، اور اپنے رسول ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) کی حفاظت فرمائی۔ اور اس لئے بھی کہ اسلام آنے کے بعد عظیم یہودی سلطنت کے قیام کا خواب شرمندہ تعبیر ہوتا نظر نہیں آرہا تھا۔ اور مشرکین نے اس لیے دشمنی کی کہ مسلمانوں نے اللہ کی وحدانیت کا اقرار کیا، اور انبیائے کرام کی نبوتوں پر ایمان لے آئے، جبکہ وہ کفر و شرک کے گھٹا ٹوپ اندھیروں میں بھٹکتے رہے۔ اور مسیح (علیہ السلام) کے ماننے والوں میں سے جو لوگ اپنے آپ کو نصاریٰ کہتے ہیں، اور انجیل کے منہج کے مطابق اپنی زندگی گذارتے ہیں وہ مجموعی طور پر اپنے دلوں میں اسلام اور مسلمانوں کے لیے نرم گوشہ رکھتے ہیں۔ اور اس کی وجہ یہ ہے کہ ان کے دلوں میں نرمی ہوتی ہے اور یہود کی بہ نسبت ان کے دلوں میں حقد و حسد کم ہوتا ہے۔ حافظ ابن کثیر لکھتے ہیں، اس کا سبب یہ ہے کہ دین مسیح پر قائم رہنے کی وجہ سے ان کے دلوں میں نرمی اور ہمدردی کا جذبہ ہوتا ہے، جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے سورۃ حدید آیت 27 میں فرمایا ہے ، کہ ہم نے مسیح کے ماننے والوں کے دلوں میں ہمدردی اور رحمت کا جذبہ رکھا ہے، انجیل میں ہے کہ جو تمہارے دائیں گال پر تھپڑ مارے تم اس کے سامنے اپنا بایاں گال پیش کردو۔ اور اس کی وجہ یہ بھی ہے کہ جنگ کرنا دین مسیح میں مشروع نہیں تھا، اس کے برعکس مذہب یہود میں ہے کہ جو تمہارے دین کا مخالف ہو اسے نقصان پہنچانے کی ہر ممکن کوشش کرو، ابن مردویہ نے ابوہریرہ (رض) سے مرفوعا روایت کی ہے کہ جب بھی کوئی یہودی کسی مسلمان کو تنہائی میں پاتا ہے تو اسے قتل کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ نصاری مسلمانوں سے زیادہ قریب اس لیے بھی ہیں کہ ان کے اندر حصول علم اور زہد فی الدنیا کی رغبت پائی جاتی ہے۔ اور جس آدمی کے اندر یہ دونوں چیزیں پائی جائیں گی اس میں بغض و حسد کا مادہ کم ہوتا ہے، اسی کی طرف آیت کے آخر میں اشارہ ہے کہ ان میں علماء اور عباد و زہاد ہوتے ہیں جو تواضع اختیار کرتے ہیں، اور یہودیوں کی طرح کبر و غرور میں مبتلا نہیں ہوتے، اور نصاری کی صفت یہ بھی ہے کہ جب وہ اللہ کا کلام سنتے ہیں تو ان کی آنکھوں سے آنسو جاری ہوتا ہے، اس لیے کہ اس میں نبی کریم ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) کی بشارت موجود ہے، اور دعا کرتے ہیں کہ اے اللہ ! ہمیں ان لوگوں میں لکھ دے جو اس کے صحیح ہونے کی شہادت دیتے ہیں اور اس پر ایمان لاتے ہیں۔ ان آیات میں عیسائیوں کی نرمی کا جو ذکر آیا ہے وہ اس بات کی دلیل نہیں کہ وہ مسلمانوں سے دشمنی نہیں رکھتے۔ اسی لیے قرآن نے کے کلمات استعمال کیے ہیں کہ نصاری بھی دشمن ہیں، لیکن یہود و مشرکین عداوت میں بڑھے چڑھے ہیں، گذشتہ زمانے میں مسلمانوں اور عیسائیوں کے درمیان جو جنگیں ہوئیں ان کی وجہ عداوت بھی تھی، اور یہودیوں کی سازشوں کی وجہ سے بھی ایسا ہوا، یہ بات ذہن میں رہنی چاہئے کہ بسا اوقات دلوں میں نرم گوشے ہونے کے باوجود ذاتی یا قومی مفادات کی خاطر بھائیوں، رشتہ داروں، قبیلوں اور قوموں میں جنگیں ہوجایا کرتی ہیں۔ مفسرین کا اتفاق ہے کہ اس سورت کی آیت 82 اور ساتویں پارہ میں اسی سورت کی آیات 83، 84 اور 85 نجاشی اور اس کے ساتھیوں کا ایمان اور ان کی صفات بیان کرنے کے لیے نازل ہوئی تھیں، ابن ابی حاتم نے سعید بن مسیب، ابوبکر بن عبدالرحمن اور عروہ بن زبیر سے روایت کی ہے کہ رسول اللہ ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) نے عمرو بن امیہ ضمری کو ایک خط دے کر نجاشی کے پاس بھیجا اور نجاشی نے خط پڑھ کر جعفر بن ابی طالب اور ان کے ساتھ موجود دیگر مہاجرین کو بلا بھیجا، اور اپنے علماء اور زاہدوں کو بلا لیا، جعفر رضی اللہ عنہ نے سورۃ مریم کی تلاوت کی تو نجاشی اور اس کے تمام ساتھی قرآن پر ایمان لے آئے، اور ان کی آنکھوں سے آنسو جاری ہوگئے۔ انہی لوگوں کی حالت اور ایمانی کیفیت بیان کرنے کے لیے مدنی زندگی میں یہ آیتیں نازل ہوئی تھیں۔ محمد بن اسحاق نے ام المؤمنین ام سلمہ (رض) سے ایک طویل روایت نقل کی ہے، جس میں انہوں نے مسلمانوں کے حبشہ کی طرف ہجرت کا واقعہ بیان کیا ہے، اور یہ کہ کفار قریش نے عبداللہ بن ابی ربیعہ اور عمرو بن العاص کو بہت سارے ہدیے اور تحائف دے کر حبشہ روانہ کیا، جنہوں نے وہاں جا کر نجاشی اور حبشہ کے پادریوں کو مسلمانوں کے خلاف بہت زیادہ ورغلایا کہ کسی طرح مسلمان مہاجرین کفار قریش کے حوالے کردئیے جائیں۔ لیکن جب جعفر بن ابی طالب نے اسلام کی تشریح کی، اور نبی کریم ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) کی صفات بیان کیں، اور مسیح بن مریم کے بارے میں اسلام کا صحیح عقیدہ پیش کیا، تو نجاشی بہت زیادہ متاثر ہوا اور مشرف بہ اسلام ہوگیا۔ انتہی۔ حافظ ابن القیم (رح) نے زاد المعاد میں تحریر کیا ہے کہ حبشہ کی طرف مسلمانوں کی ہجرت 5 نبوی میں ہوئی تھی۔ انتہی۔ بخاری و مسلم کی روایت ہے کہ جب نبی کریم ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) کو نجاشی کی موت کی خبر پہنچی تو آپ نے صحابہ کرام (رض) سے فرمایا کہ حبشہ میں تمہارے بھائی نجاشی کا انتقال ہوگیا اس کی نماز جنازہ پڑھو، چنانچہ تمام صحابہ کے ساتھ آپ نے صحرا میں جا کر اس کی نماز جنازہ ادا کی۔