وَحَسِبُوا أَلَّا تَكُونَ فِتْنَةٌ فَعَمُوا وَصَمُّوا ثُمَّ تَابَ اللَّهُ عَلَيْهِمْ ثُمَّ عَمُوا وَصَمُّوا كَثِيرٌ مِّنْهُمْ ۚ وَاللَّهُ بَصِيرٌ بِمَا يَعْمَلُونَ
اور سمجھ بیٹھے کہ (ان کے خلاف) کوئی فتنہ (97) کھڑا نہیں ہوگا، اس لیے اندھے اور بہرے ہوگئے، پھر اللہ نے ان پر نظر کرم کیا، لیکن ان میں سے بہت پھر اندھے اور بہرے ہوگئے، اور اللہ ان کے کرتوتوں کو خوب دیکھنے والا ہے
97۔ آیات 70، 71 میں بنی اسرائیل کی تاریخ بیان کی گئی ہے، اللہ تعالیٰ نے ان سے عہد و پیمان لیا کہ وہ صرف اسی کی عبادت کریں گے، اور اوامر و نواہی میں صرف اسی کی اطاعت کریں گے، اور ان کے حال پر رحم کرتے ہوئے ان کی ہدایت کے لیے انبیاء بھیجے، اور انہیں حکومت و سلطنت سے نوازا، چنانچہ یوشع بن نون کے زمانے میں ان کی حکومت قائم ہوئی۔ لیکن انہوں نے مرورِ زمانہ کے ساتھ بتوں کی پرسش شروع کردی اور انبیاء میں سے بعض کی تکذیب کی، اور بعض کو قتل کردیا، اور گمان کرلیا کہ ان کا مواخذہ نہیں ہوگا، اس لیے حق کو قبول کرنے سے اندھے اور بہرے ہوگئے، تو اللہ تعالیٰ نے ان پر بابل کے بادشاہ بخت نصر کو مسلط کردیا، جس نے انہیں غلام بنا لیا اور بیت المقدس شہر کو برباد کردیا۔ اس کے بعد اللہ نے تقریبا ستر سال کے بعد ان پر پھر رحم کھایا اور انہیں دوبارہ بیت المقدس شہر پہنچا دیا، اور ان کی ہدایت کے لیے بعض انبیاء بھیجے، جن کی دعوت سے متاثر ہو کر انہوں نے دوبارہ اللہ کی عبادت شروع کردی۔ لیکن مرور زمانہ کے ساتھ ان کی دینی حالت بگڑتی گئی، یہاں تک کہ عیسیٰ (علیہ السلام) کو اللہ نے مبعوث کیا تو وہ حق کو قبول کرنے سے پھر اندھے اور بہرے ہوگئے اور انہیں قتل کرنے کی سازش کی، تو اللہ نے اپنے نبی عیسیٰ (علیہ السلام) کو آسمان پر اٹھا لیا، اور رومانیوں کے ہاتھوں ان کو تباہ و برباد کردیا۔