يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا مَن يَرْتَدَّ مِنكُمْ عَن دِينِهِ فَسَوْفَ يَأْتِي اللَّهُ بِقَوْمٍ يُحِبُّهُمْ وَيُحِبُّونَهُ أَذِلَّةٍ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ أَعِزَّةٍ عَلَى الْكَافِرِينَ يُجَاهِدُونَ فِي سَبِيلِ اللَّهِ وَلَا يَخَافُونَ لَوْمَةَ لَائِمٍ ۚ ذَٰلِكَ فَضْلُ اللَّهِ يُؤْتِيهِ مَن يَشَاءُ ۚ وَاللَّهُ وَاسِعٌ عَلِيمٌ
اے ایمان والو ! تم میں سے جو کوئی اپنے دین سے پھرجائے گا، تو اللہ تعالیٰ عنقریب ایسے لوگوں (77) کو لائے گا جن سے اللہ محبت کرے گا، اور وہ اللہ سے محبت کریں گے، جو مومنوں کے لیے جھکنے والے اور کافروں کے لیے سخت ہوں گے، اللہ کی راہ میں جہاد کریں گے، اور کسی ملامت کرنے والے کی ملامت سے نہیں ڈریں گے، یہ اللہ تعالیٰ کا انعام ہے، وہ جسے چاہتا ہے دیتا ہے، اور اللہ تعالیٰ بڑی بخشش والا، بڑا علم والا ہے
77۔ یہود و نصاری سے دوستی کی ممانعت کے بعد اب دین اسلام سے ہر زمانے میں مرتد ہونے والوں کا حال بیان کیا جا رہا ہے، کہ وہ اللہ تعالیٰ کا کچھ بھی نہ بگاڑ سکیں گے، اللہ اپنی قدرت مطلقہ سے ایسے لوگوں کو ہر زمانے میں لائے گا جو اس کے دین کی تائید کریں گے، اور شریعت کو نافذ کریں گے، اور ان کی صفت یہ ہوگی کہ اللہ ان سے محبت کرے گا اور وہ اللہ سے محبت کریں گے، مسلمانوں کے لیے تواضع اختیار کریں گے اور کافروں کے لیے سخت ہوں گے، اللہ کی راہ میں جہاد کریں گے، اور کسی کی پرواہ نہ کریں گے۔ امام شوکانی لکھتے ہیں کہ آیت میں قوم سے مراد ابوبکر صدیق اور وہ صحابہ کرام اور تابعین ہیں جنہوں نے رسول اللہ ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) کی وفات کے بعد دین اسلام سے برگشتہ ہونے والوں سے جنگ کی تھی، اور ان کے بعد وہ تمام مسلمان مراد ہیں جنہوں نے کسی بھی زمانے میں مرتد ہونے والوں سے جنگ کی یا مستقبل میں قیامت تک کریں گے۔ علمائے محققین نے لکھا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس آیت کے ذریعہ غیب کی ایک ایسی خبر دی ہے جو بعد میں ظاہر ہونے والے حقائق کے مطابق پوری ہوئی اور یہ دلیل ہے اس بات کی کہ قرآن کلام الٰہی ہے، چنانچہ رسول اللہ ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) کی وفات کے قبل اور بعد میں گیارہ قسم کے لوگ اسلام سے مرتد ہوئے، جن کے خلاف ابوبکر رضی اللہ عنہ اور صحابہ کرام (رض) نے جنگ کی، اور انہیں دوبارہ اسلام کی طرف لوٹنے پر مجبور کیا اور اس آیت میں مذکورہ اوصاف کریمہ کے مستحق ہوئے۔