يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَتَّخِذُوا الْيَهُودَ وَالنَّصَارَىٰ أَوْلِيَاءَ ۘ بَعْضُهُمْ أَوْلِيَاءُ بَعْضٍ ۚ وَمَن يَتَوَلَّهُم مِّنكُمْ فَإِنَّهُ مِنْهُمْ ۗ إِنَّ اللَّهَ لَا يَهْدِي الْقَوْمَ الظَّالِمِينَ
اے ایمان والو ! یوہد و نصاری کو اپنا دوست (75) مت بناؤ، وہ لوگ آپس میں ایک دوسرے کے دوست ہوتے ہیں، اور تم میں سے جو کوئی انہیں اپنا دوست بنائے گا وہ بے شک انہی میں سے ہوجائے گا، بے شک اللہ ظالموں کو ہدایت نہیں دیتا ہے
75۔ ابن جریر، ابن ابی حاتم اور بیہقی وغیرہم نے اس آیت کے شان نزول کے بارے میں روایت کی ہے کہ بعض یہود مدینہ عبادہ بن صامت انصاری اور عبداللہ بن ابی بن سلول کے حلیف تھے۔ میدانِ بدر میں جب رسول اللہ ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) اور مسلمانوں کو فتح ہوئی تو یہود بہت چراغ پا ہوئے اور اپنی بدنیتی کا اظہار کرنے لگے۔ عبادہ بن صامت (رض) نے ان کا یہ حال دیکھ کر اپنے حلیفوں سے براءت و علیحدگی کا اعلان کردیا، اور اللہ، اس کے رسول ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) اور مسلمانوں کی دوستی اور محبت پر راضی ہوگئے، لیکن عبداللہ بن ابی نے انکار کردیا، اسی بارے میں یہ آیت نازل ہوئی، اور اللہ تعالیٰ نے تمام مسلمانوں کو یہود و نصاری کی دوستی سے منع فرمایا جو اسلام اور مسلمانوں کے دشمن ہیں، اور مسلمانوں کی عداوت ان کے درمیان قدر مشترک ہے۔ اس کے بعد اللہ نے یہ فیصلہ سنایا کہ جو بھی ان سے دوستی کرے گا ان میں سے ہوجائے گا، چاہے وہ اس زعم باطل میں مبتلا ہو کہ ان کا دین الگ ہے