يَا أَهْلَ الْكِتَابِ قَدْ جَاءَكُمْ رَسُولُنَا يُبَيِّنُ لَكُمْ عَلَىٰ فَتْرَةٍ مِّنَ الرُّسُلِ أَن تَقُولُوا مَا جَاءَنَا مِن بَشِيرٍ وَلَا نَذِيرٍ ۖ فَقَدْ جَاءَكُم بَشِيرٌ وَنَذِيرٌ ۗ وَاللَّهُ عَلَىٰ كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ
اے اہل کتاب ! ایک مدت تک سلسلہ انبیاء کے انقطاع کے بعد ہمارے رسول (39) تمہارے پاس آگئے، جو (ہمارے احکام) تمہارے سامنے صاف صاف بیان کرتے ہیں (تاکہ ایسا نہ ہو کہ) تم کہنے لگو کہ ہمارے پاس تو کوئی خوشخبری دینے والا اور ڈرانے والا آیا ہی نہیں تھا، پس تمہارے پاس ایک خوشخبری دینے والا اور ڈرانے والا آگیا، اور اللہ ہر چیز پر قادر ہے
39۔ اس آیت کریمہ میں اللہ تعالیٰ نے اہل کتاب پر ایک نئی حجت قائم کی ہے، اور انہیں خبر دی ہے کہ ان کے پاس اللہ کےرسول محمد ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) رسولوں کا سلسلہ ایک مدت تک منقطع ہونے کے بعد آچکے ہیں (اس لیے کہ عیسیٰ (علیہ السلام) کے آسمان پر اٹھائے جانے کے تقریبا پانچ سو ستر سال کے بعد نبی کریم ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) مبعوث ہوئے) تاکہ تم اپنے کفر و شرک اور شر و فساد کے لیے عذر لنگ پیش کرتے ہوئے یہ نہ کہہ سکو کہ ہمارے پاس تو کوئی نبی آیا ہی نہیں، تو تمہارے اتمام حجت کے لیے نبی کریم ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) آگئے ہیں، اب ان پر ایمان لے آؤ اور ان کی اتباع کرو تاکہ نجات حاصل کرو، ورنہ عذاب آخرت تمہارا انتظار کر رہا ہے، اس لیے کہ اللہ ہر چیز پر قادر ہے تو وہ تمہیں دوبارہ زندہ کرنے اور عذاب دینے پر یقینا قادر ہے۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے کتاب الانبیاء میں ابوہریرہ (رض) سے روایت کی ہے کہ رسول اللہ ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) نے فرمایا : میں ابن مریم کا زیادہ حقدار ہوں اس لیے کہ میرے اور ان کے درمیان کوئی نبی نہیں۔