فَبِمَا نَقْضِهِم مِّيثَاقَهُمْ لَعَنَّاهُمْ وَجَعَلْنَا قُلُوبَهُمْ قَاسِيَةً ۖ يُحَرِّفُونَ الْكَلِمَ عَن مَّوَاضِعِهِ ۙ وَنَسُوا حَظًّا مِّمَّا ذُكِّرُوا بِهِ ۚ وَلَا تَزَالُ تَطَّلِعُ عَلَىٰ خَائِنَةٍ مِّنْهُمْ إِلَّا قَلِيلًا مِّنْهُمْ ۖ فَاعْفُ عَنْهُمْ وَاصْفَحْ ۚ إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ الْمُحْسِنِينَ
پھر جب انہوں نے بد عہدی (34) کی تو ہم نے ان پر لعنت بھیج دی، اور ان کے دلوں کو سخت بنا دیا، چنانچہ وہ (اللہ کے) کلام میں لفظی (اور معنوی) تحریف پیدا کرنے لگے، اور جن باتوں کی انہیں نصیحت کی گئی تھی ان کا ایک بڑا حصہ فراموش کر بیٹھے، اور ان میں سے چند کے علاوہ آپ کو ہمیشہ ہی ان کی کسی نہ کسی خیانت کی اطلاع ہوتی رہے گی، پس آپ انہیں معاف کردیجئے، اور درگذر کردیجئے، بے شک اللہ احسان اور بھلائی کرنے والوں کو محبوب رکھتا ہے
34۔ اس آیت کریمہ میں بھی یہود کے خبث باطن کو بیان کیا گیا ہے، موسیٰ (علیہ السلام) کے زمانہ میں ان سے عہد لیا گیا تھا کہ وہ تورات پر عمل کریں گے، اور کنعانیوں سے جنگ کر کے انہیں بیت المقدس سے نکال باہر کریں گے، لیکن انہوں نے اپنے اس عہد کا پاس نہیں رکھا، اس لیے اللہ نے ان پر لعنت بھیج دی، اور ان کے دل سخت بنا دئیے، جس کے نتیجہ میں انہوں نے اللہ کے کلام میں تحریف کیا، اور عیسیٰ اور محمد علیہما الصلاوۃ والسلام کی نبوت پر دلالت کرنے والی آیتوں کو بدل ڈالا، اور اللہ کی طرف سے جاری شدہ بہت سے احکام و شرائع کو پس پشت ڈال دیا اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے نبی کریم ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) کو مخاطب کر کے فرمایا کہ آپ ان میں خیانت کرنے والی ایک جماعت کو ہمیشہ پائیں گے، سوائے ان چند افراد کے جنہوں نے اسلام کو قبول کرلیا جیسے عبداللہ بن سلام وغیرہ، اس لیے فی الحال آپ انہیں معاف کردیجئے اور درگذر فرمائیے، اللہ احسان کرنے والوں کو پسند کرتا ہے۔