سورة المآئدہ - آیت 2

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تُحِلُّوا شَعَائِرَ اللَّهِ وَلَا الشَّهْرَ الْحَرَامَ وَلَا الْهَدْيَ وَلَا الْقَلَائِدَ وَلَا آمِّينَ الْبَيْتَ الْحَرَامَ يَبْتَغُونَ فَضْلًا مِّن رَّبِّهِمْ وَرِضْوَانًا ۚ وَإِذَا حَلَلْتُمْ فَاصْطَادُوا ۚ وَلَا يَجْرِمَنَّكُمْ شَنَآنُ قَوْمٍ أَن صَدُّوكُمْ عَنِ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ أَن تَعْتَدُوا ۘ وَتَعَاوَنُوا عَلَى الْبِرِّ وَالتَّقْوَىٰ ۖ وَلَا تَعَاوَنُوا عَلَى الْإِثْمِ وَالْعُدْوَانِ ۚ وَاتَّقُوا اللَّهَ ۖ إِنَّ اللَّهَ شَدِيدُ الْعِقَابِ

ترجمہ تیسیر الرحمن لبیان القرآن - محمد لقمان سلفی صاحب

اے ایمان والو ! (اللہ کی مقرر کردہ) نشانیوں (4) کو حلال نہ بناؤ، اور نہ حرمت والے مہینے کو، اور نہ قربانی کے اس جانور کو جسے کعبہ کی طرف لے جایا جا رہا ہو، اور نہ ان جانوروں کو جن کی گردن میں پٹے ڈال کر کعبہ کی طرف لے جایا جا رہا ہو، (اور نہ حلال بناؤ) بیت حرام کی طرف آنے والوں کو جن کا مقصد اپنے رب کا فضل اور اس کی خوشنودی حاصل کرنا ہوتا ہے، اور جب تم احرام کھول دو (5) تو شکار کرو، اور کسی قوم کی تم سے دشمنی (6) کہ انہوں نے تمہیں مسجد حرام سے روک دیا تھا، اس پر نہ ابھارے کہ ان پر زیادتی کرو، اور نیکی اور تقوی کے کاموں میں آپس میں تعاون (7) کرو، اور گناہ اور زیادتی کے کاموں میں ایک دوسرے کا ساتھ نہ دو، اور اللہ سے ڈرتے رہو، بے شک اللہ سخت سزا دینے والا ہے

تیسیر الرحمن لبیان القرآن - محمد لقمان السلفی رحمہ اللہ

4۔ ابن عباس (رض) کے نزدیک شعائر سے مراد حج کے مناسک ہیں، دوسرے کے نزدیک اس سے مراد اللہ کی حرام کردہ چیزیں ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے مؤمنوں کو حکم دیا کہ ان محرمات کا لحاظ رکھیں اور انہیں اپنے لیے حلال نہ بنا لیں، اسی طرح اس حکم میں حالت احرام کے محرمات اور حدود حرم کے محرمات سبھی شامل ہیں۔ شہر حرام سے مراد وہ چار مہینے ہیں جن میں قتال کرنا حرام تھا، یعنی ذی القعدہ، ذی الحجہ، محرم اور رجب کے مہینے، ابتدائے اسلام میں ان مہینوں میں قتال کرنا حرام تھا، اس کے بعد یہ حکم قرآن کریم کی آیت اور ان دیگر آیتوں کے ذریعہ منسوخ ہوگیا جن میں کفار سے قتال کا عام حکم دیا گیا ہے، چنانچہ نبی کریم ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) نے اہل طائف سے ذی القعدہ میں جہاد کیا تھا، جمہور علماء کا یہی مسلک ہے، ھدی سے مراد وہ جانور ہے جسے اللہ کے گھر کے لیے ہدیہ بھیج دیا جاتا تھا۔ قلائد سے مراد وہ جانور ہیں جنہیں جوتے وغیرہ کا ہار پہنا کر بیت اللہ کی طرف لے جایا جاتا تھا۔ اللہ تعالیٰ نے حکم دیا کہ ان جانوروں کو نہ چھیڑا جائے اور نہ انہیں غصب کیا جائے، اسی طرح اللہ تعالیٰ نے حکم دیا کہ جو لوگ حج یا عمرہ یا مکہ بغرض تجارت یا سکونت پذیر ہونے کے لیے جائیں تو انہیں روکا نہ جائے۔ شروع میں یہ حکم مسلمانوں اور مشرکوں سبھوں کے لیے عام تھا۔ لیکن جب سورۃ توبہ کی آیت 28 ۔ نازل ہوئی تو مشرکین کے حق میں یہ حکم منسوخ ہوگیا۔ اسی لیے 9 ھ میں جب رسول اللہ ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) نے حضرت ابوبکر (رض) کو حجاج کا امیر بنا کر بھیجا تو حضرت علی (رض) کو بھی بھیجا، انہوں نے رسول اللہ ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) کی نیابت کرتے ہوئے مشرکین سے براءت کا اعلان کردیا، اور یہ کہ اس سال کے بعد کوئی مشرک حج نہیں کرے گا، اور کوئی ننگا بیت اللہ کا طواف نہیں کرے گا، بعض حضرات نے کہا ہے کہ یہ آیت صرف مسلمانوں کے بارے میں نازل ہوئی تھی، اس لیے یہ پہلے بھی محکم تھی اور اب بھی محکم ہے اس آیت کے مفہوم میں یہ بھی داخل ہے کہ اگر کوئی شخص مسجد حرام میں ارتکاب معاصی اور شر پھیلانے کی نیت سے داخل ہونا چاہتا ہو تو حرم کے احترام کا تقاضا یہ ہے کہ اسے روک دیا جائے۔ جیسا کہ اللہ نے سورۃ حج کی آیت 25 میں فرمایا ہے، کہ جو بھی وہاں ظلم کے ساتھ الحاد کا ارادہ کرے گا، ہم اسے دردناک عذاب چکھائیں گے۔ 5۔ اللہ تعالیٰ نے اوپر جو حکم دیا تھا کہ حالت احرام میں اور حدود حرم میں شکار نہ کرو، اس کا مفہوم مخالف یہ تھا کہ جب احرام کھل جائے تو شکار کرنا جائز ہے اور حدود حرم کے باہر شکار کرنا جائز ہے۔ اسی حکم کی یہاں تصریح کردی گئی ہے۔ 6۔ 6 ھ میں جب رسول اللہ ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) اور صحابہ کرام حدیبیہ کے مقام پر پہنچے تو مشرکین مکہ نے انہیں عمرہ ادا کرنے کے لیے آگے بڑھنے سے روک دیا۔ بعض مسلمانوں کے دلوں میں مدینہ پہنچنے کے بعد ان کے اس برے برتاؤ کی وجہ سے عام مشرکین سے انتقام کا جذبہ پیدا ہوا کہ کیوں نہ ان مشرکین کو حرم کی طرف جانے سے روکا جائے جو مدینہ کے قریب سے گذر کر مکہ جاتے تھے، اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کے اس ارادہ کی تردید کی ہے۔ نبی کریم ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) نے فرمایا ہے کہ امانت، امانت والے کو پہنچا دو، اور خائن کے ساتھ خیانت نہ کرو، (ابو داود) 7۔ زیادتی اور حد سے تجاوز کرنے سے منع کرنے کے بعد مزید تاکید کے طور پر کہا جا رہا ہے کہ مسلمان کا شیوہ زیادتی کرنا نہیں، بلکہ بھلائی اور تقوی کے کاموں میں ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کرنا ہے، مسلمان آپس میں گناہ اور ظلم و تعدی کے کاموں میں تعاون نہیں کرتے، اس کے بعد اللہ نے فرمایا کہ دیکھو، ہر حال میں اللہ سے ڈرتے رہو، اللہ نے جن چیزوں کو حرام قرار دیا ہے، ان سے بچتے رہو، کیونکہ جو اللہ کی نافرمانی کرتا ہے، اور محرمات کے ارتکاب کی جرأت کرتا ہے، اللہ نے ایسے لوگوں کے لیے بڑا شدید عذاب تیار کر رکھا ہے۔