يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا آمِنُوا بِاللَّهِ وَرَسُولِهِ وَالْكِتَابِ الَّذِي نَزَّلَ عَلَىٰ رَسُولِهِ وَالْكِتَابِ الَّذِي أَنزَلَ مِن قَبْلُ ۚ وَمَن يَكْفُرْ بِاللَّهِ وَمَلَائِكَتِهِ وَكُتُبِهِ وَرُسُلِهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ فَقَدْ ضَلَّ ضَلَالًا بَعِيدًا
اے ایمان والو ! (130) تم لوگ اللہ اور اس کے رسول پر، اور اس کتاب پر جو اس نے اپنے رسول پر اتاری ہے، اور ان کتابوں پر جو اس نے پہلے اتاری تھی اپنے ایمان میں قوت و ثبات پیدا کرو، اور جو شخص اللہ، اور اس کے فرشتوں، اور اس کی کتابوں، اور اس کے رسولوں، اور یوم آخرت کا انکار کردے گا، وہ گمراہی میں بہت دور چلا جائے گا
130۔ یہاں خطاب عام مؤمنوں سے ہے، انہیں کہا جا رہا ہے کہ وہ اپنے ایمان میں مزید قوت اور ثبات پیدا کریں اور ہر حال میں اس پر سختی سے کاربند رہیں۔ آیت میں کتاب کا لفظ دو بار استعمال ہوا ہے، پہلے سے مراد قرآن کریم، اور دوسرے سے مراد تمام آسمانی کتابیں ہیں، قرآن کریم کے لیے نزل کا لفظ استعمال کیا گیا ہے اس لیے کہ قرآن تئیس سال میں بتدریج نازل ہوا، اور دوسری کتابوں کے لیے انزل کا لفظ استعمال ہوا ہے، اس لیے کہ وہ کتابیں ایک بار پوری اترا کرتی تھیں۔ دونوں لفظوں کے لغوی معنی میں یہی فرق ہے۔ اس کے بعد اللہ نے فرمایا کہ جو شخص اللہ، اس کے فرشتے، اس کی کتابوں، اس کے رسولوں اور یوم آخرت کا انکار کرے گا وہ راہ حق سے بھٹک جائے گا، اور کھلم کھلا گمراہی میں مبتلا ہوجائے گا، اس لیے کہ اللہ تعالیٰ کا انکار تو کفر ہے ہی فرشتوں، کتابوں، رسولوں اور یوم آخرت کا انکار بھی کفر ہے، کیونکہ ان پر ایمان لائے بغیر، اور اس ایمان کے بموجب عمل کیے بغیر ایمان باللہ کا تصور نہیں کیا جاسکتا