وَإِذَا ضَرَبْتُمْ فِي الْأَرْضِ فَلَيْسَ عَلَيْكُمْ جُنَاحٌ أَن تَقْصُرُوا مِنَ الصَّلَاةِ إِنْ خِفْتُمْ أَن يَفْتِنَكُمُ الَّذِينَ كَفَرُوا ۚ إِنَّ الْكَافِرِينَ كَانُوا لَكُمْ عَدُوًّا مُّبِينًا
اور جب تم حالت سفر میں ہو تو نماز (106) قصر کرنے میں تم پر کوئی گناہ نہیں، اگر تمہیں ڈر ہو کہ کفار تم پر آ چڑھیں گے، بے شک کفار تمہارے کھلے دشمن ہیں
106۔ چونکہ ہجرت بغیر سفر کے ناممکن تھی، اسی لیے ہجرت کے احکام کے ساتھ سفر میں نماز کا حکم بیان کرنا مناسب ہوا، کہ مسلمان جب سفر میں ہوں تو چار رکعت والی نمازیں دو رکعت پڑھیں اور آیت میں یعنی تمہارے لیے کوئی حرج نہیں ہے سے جمہور نے استدلال کیا ہے کہ سفر میں قصر کرنا سنت ہے، واجب نہیں، مسلم، احمد، ابو داود اور ترمذی نے یعلی بن امیہ سے روایت کی ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) سے اس آیت کے بارے میں پوچھا کیا امن ہوجانے کے بعد بھی نماز قصر پڑھی جائے گی؟ تو آپ نے فرمایا یہ اللہ کا صدقہ ہے، مسلمان اسے قبول کریں، اور رسول اللہ ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) کا عمل بھی یہی تھا کہ سفر میں آپ نے بغیر حالت خوف کے قصر کیا، اسی لیے علماء نے کہا ہے کہ اگر خوف ہو تو قصر کرو، کی قید اس زمانہ میں مسلمانوں کا حال بیان کرنے کے لیے ہے، ورنہ قصر ہر سفر میں جائز ہے۔ ترمذی، نسائی اور ابن ابی شیبہ نے ابن عباس (رض) سے روایت کی ہے کہ نبی کریم ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) مدینہ منورہ سے سفر کے لیے نکلے، اور انہیں رب العالمین کے علاوہ کسی کا خوف نہیں تھا، اور آپ نے دو دو رکعت نماز پڑھی اور بخاری اور دوسرے محدثین نے انس (رض) سے روایت کی ہے کہ ہم لوگ رسول اللہ ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) کے ساتھ مدینہ سے مکہ کے لیے روانہ ہوئے، اور آپ دو دو رکعت نماز پڑھتے رہے، یہاں تک کہ ہم مدینہ لوٹ کر آگئے۔