وَإِذَا كَالُوهُمْ أَو وَّزَنُوهُمْ يُخْسِرُونَ
اور جب ان کو ناپ کریا تول کردیتے ہیں تو کم دیتے ہیں
(3)اور جب لوگوں کو دیتے ہیں تو کوشش کرتے ہیں کہ پیمانہ لبالب نہ ہو اور کہتے ہیں کہ یہی صحیح پیمائش ہے۔ حافظ سیوطی نے ” الاکلیل“ میں لکھا ہے کہ اس آیت کریمہ میں ناپ تول میں کمی اور خیانت کی شدید مذمت آئی ہے۔ اس لئے کہ اس کے ذریعہ لوگوں کا مال ناحق کھایا جاتا ہے اور اس مال کی مقدار اگرچہ تھوڑی ہوتی ہے، لیکن ایسا کرنے والے کی دناءت و خباثت پر دلالت کرتی ہے اور اس بات کی غمازی کرتی ہے کہ اگر اسے موقع ملتا تو لوگوں کا مال کثیر بھی بطور حرام کھانے سے گریز نہیں کرتا۔ انتہی اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم کی کئی دیگر آیتوں میں بھی پورے ناپ تول کا حکم دیا ہے، سورۃ الاسراء آیت(35) میں آیا ہے : ﴿وَأَوْفُوا الْكَيْلَ إِذَا كِلْتُمْ وَزِنُوا بِالْقِسْطَاسِ الْمُسْتَقِيمِ ۚ ذَٰلِكَ خَيْرٌ وَأَحْسَنُ تَأْوِيلًا Ĭ ” اور جب ناپنے لگو تو بھرپور پیمانے سے ناپو، اور سیدھے ترازو سے تولا کرو، یہی بہتر ہے، اور انجام کے لحاظ سے بھی بہت اچھا ہے“ اور سورۃ الرحمٰن آیت (9)میں آیا ہے : ﴿وَأَقِيمُوا الْوَزْنَ بِالْقِسْطِ وَلَا تُخْسِرُوا الْمِيزَانَ Ĭ ” اور انصاف کے ساتھ وزن کو ٹھیک رکھو، اور تول میں کمی نہ دو“ اور شعیب (علیہ السلام) کی قوم کو اللہ تعالیٰ نے اسی گناہ کے سبب ہلاک کردیا کہ وہ لوگ ناپتول میں لوگوں کے ساتھ خیانت کرتے تھے۔