وَأَمَّا مَن جَاءَكَ يَسْعَىٰ
اور جو آدمی آپ کے پاس دوڑتا (٢) ہوا آتا ہے
(8/9)اللہ تعالیٰ نے نبی کریم (ﷺ) کو مزید عتاب کرتے ہوئے فرمایا کہ جو شخص خوف الٰہی اور تقویٰ کے زیر اثر آپ کے پاس تیزی کے ساتھ آیا ہے، تاکہ آپ اسے دین کی تعلیم دیں اور اسے اپنی پیغمبرانہ نصیحتوں سے نوازیں، اس سے آپ نے منہ پھیر لیا ہے، اور ان لوگوں کی طرف متوجہ ہیں جو کبر و غرور میں مبتلا ہیں اور آپ کی باتوں پر دھیان نہیں دے رہے ہیں۔ حافظ سیوطی نے اپنی کتاب ” الاکلیل“ میں لکھا ہے کہ مذکورہ بالا آیات میں اللہ تعالیٰ نے فقراء کی دل جوئی ، ان کی ضروریات پوری کرنے اور مجالس علم میں ان کی طرف متوجہ ہونے کی ترغیب دلائی ہے، اتنہی۔ اسی لئے سفیان ثوری کے بارے میں آتا ہے کہ ان کی مجلس میں فقراء امراء بنے ہوتے تھے۔ یہ آیات دلیل ہیں کہ نبی کریم (ﷺ) کو اللہ تعالیٰ نے بذریعہ وحی غیب کی جو بات بھی بتائی، اسے انہوں نے اپنی امت سے نہیں چھپایا ، علمائے سلف کہا کرتے تھے کہ اگر رسول اللہ (ﷺ) وحی کا کوئی حصہ چھپاتے، تو اپنے بارے میں اللہ کے اس عتاب کو ضرور چھپا دیتے۔ ابن ام مکتوم (رض) کے ساتھ نبی کریم (ﷺ) کا مذکور بالا برتاؤ کوئی گناہ کی بات نہیں تھی، اس لئے کہ آپ کے پاس صنادید قریش موجودتھے اور آپ اس آس میں کہ شاید وہ لوگ مسلمان ہوجائیں، تھوڑی دیر کے لئے ایک مسلمان کو یہ سوچ کر نظر انداز کر رہے تھے۔ کہ بعد میں اس کے سوال کا جواب دے دیں گے، تاکہ وہ کافر اٹھ کر چلے نہ جائیں، بظاہر دعوت اسلامی کا یہی تقاضا تھا اور عام دعاۃ الی اللہ کے لئیےایسا ہی کرنا مناسب تھا، لیکن اللہ کی نظر میں رسول اللہ (ﷺ) کا برتاؤ اپنے صحابہ کے ساتھ اس سے ارفع و اعلیٰ ہونا چاہئے تھا، اسی لئے اللہ تعالیٰ نے آپ کو عتاب کیا، یعنی عتاب کا سبب ترک اولیٰ تھا، نہ کہ ارتکاب معصیت۔ نبی کریم (ﷺ) سے دوبارہ بطور تاکید کہا جا رہا ہے کہ اب کبھی آپ کو ایسا نہیں کرنا چاہئے کہ مسلمان فقراء و مساکین سے منہ پھیر کر کبرو و غرو روالے کافروں کی طرف یکسر متوجہ ہوجائیں، چنانچہ اوپر انس (رض) کی روایت گذر چکی ہے کہ اس واقعے کے بعد آپ (ﷺ) ابن ام مکتوم کا بڑا خیال رکھتے تھے۔