سورة النسآء - آیت 64

وَمَا أَرْسَلْنَا مِن رَّسُولٍ إِلَّا لِيُطَاعَ بِإِذْنِ اللَّهِ ۚ وَلَوْ أَنَّهُمْ إِذ ظَّلَمُوا أَنفُسَهُمْ جَاءُوكَ فَاسْتَغْفَرُوا اللَّهَ وَاسْتَغْفَرَ لَهُمُ الرَّسُولُ لَوَجَدُوا اللَّهَ تَوَّابًا رَّحِيمًا

ترجمہ تیسیر الرحمن لبیان القرآن - محمد لقمان سلفی صاحب

اور ہم نے ہر رسول کو صرف اس لیے بھیجا کہ اللہ کی اجازت سے اس کی اطاعت (72) کی جائے، اور اگر یہ لوگ، جب انہوں نے اپنے آپ پر ظلم (73) کیا، آپ کے پاس آتے، پھر اللہ سے مغفرت طلب کرتے، اور رسول ان کے لیے مغفرت طلب کرتے، تو اللہ کو توبہ قبول کرنے والا اور نہایت مہربان پاتے

تیسیر الرحمن لبیان القرآن - محمد لقمان السلفی رحمہ اللہ

72۔ گذشتہ آیتوں میں منافقین کا ایک بڑا جرم بیان کرنے کے بعد کہ رسول اللہ ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) کے بجائے کاہنوں کے پاس فیصلہ کے لیے گئے، یہاں اللہ تعالیٰ نے نبی کریم ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) کی اطاعت کی مزید تاکید فرمائی ہے کہ ہم کسی رسول کو اسی لیے بھیجتے ہیں کہ اس کی اطاعت کی جائے، اور یہ چیز بغیر توفیق الٰہی کے حاصل نہیں ہوتی، معلوم ہوا کہ رسول اکی اطاعت فرض ہے، اور اس کی فرضیت کا انکار کفر ہے۔ 73۔ اللہ نے فرمایا کہ ان منافقین نے رسول اللہ ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) کے بجائے کاہنوں اور طاغوتوں کو اپنا فیصل مان کر اپنے آپ پر بڑا ظلم کیا، کہ نفاق کے عذاب کے ساتھ ایک اور عذاب الٰہی کے مستحق بنے۔ اس عذاب سے بچنے کا ایک ہی راستہ تھا کہ اپنے نفاق اور اس جرم عظیم سے تائب ہو کر آپ کے پاس آتے، اور اللہ سے مغفرت طلب کرتے، اور آپ بھی ان کے لیے مغفرت طلب کرتے، تو اللہ ان کے گناہوں کو معاف کردیتا آیت کا تعلق منافقین کے ایک خاص واقعہ سے ہے جس کا اوپر بیان ہوچکا کہ نفاق کی بیماری میں مبتلا ہونے کی وجہ سے، رسول اللہ ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) کے بجائے کاہنوں کو اپنا فیصل مانا، ورنہ عام حالات میں توبہ کے لیے یہ شرط نہیں تھی کہ مسلمان رسول اللہ ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) کے پاس آتے اور ان کے ساتھ رسول اللہ ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) بھی ان کے لیے دعائے مغفرت کرتے۔ اسی لیے رسول اللہ ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) کی زندگی میں ایسا اور کوئی واقعہ نہیں ملتا۔ بعض مبتدعہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) کی قبر کے پاس آکر طلب مغفرت کی دعا کرنا، ایسا ہی ہے جیسا کہ آپ کی زندگی میں آپ کے پاس آکر مغفرت طلب کرنا تھا، اس لیے کہ وہ رسول اللہ ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) کو قبر میں ایسا ہی زندہ سمجھتے ہیں، جیسے موت سے پہلے تھا، کہتے ہیں کہ صرف ایک حجاب حائل ہوگیا ہے، اور اسی آیت سے استدلال کرتے ہیں، قرآن کریم میں یہ تحریف معنوی ہے، اور رسول اللہ ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) کی وفات کے بارے میں قرآن و سنت کے سراسر خلاف عقیدہ ہے