يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا أَطِيعُوا اللَّهَ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ وَأُولِي الْأَمْرِ مِنكُمْ ۖ فَإِن تَنَازَعْتُمْ فِي شَيْءٍ فَرُدُّوهُ إِلَى اللَّهِ وَالرَّسُولِ إِن كُنتُمْ تُؤْمِنُونَ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ ۚ ذَٰلِكَ خَيْرٌ وَأَحْسَنُ تَأْوِيلًا
اے ایمان والو ! اللہ کی اطاعت (66) کرو، اور رسول کی اطاعت کرو، اور رسول کی اطاعت کرو، اور تم میں سے اقتدار والوں کی، پھر اگر کسی معاملہ میں تمہارا اختلاف ہوجائے، تو اسے اللہ اور رسول کی طرف لوٹا دو (67) اگر تم اللہ اور یوم آخرت پر ایمان رکھتے ہو، اسی میں بھلائی ہے اور انجام کے اعتبار سے یہی اچھا ہے
66۔ گذشتہ آیت میں حکام اور رعایا سبھی کو عدل و انصاف کا حکم دینے کے بعد، اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے رعایا کو چاہے وہ فوج کے افراد ہوں یا عام لوگ، انہیں اپنی، اپنے رسول اور حکام کی اطاعت کا حکم دیا ہے، الا یہ کہ حکام اللہ کی نافرمانی کا حکم دیں، تو ان کی بات نہیں مانی جائے گی؟ اس لیے کہ جہاں خالق کی نافرمانی ہو رہی ہو، وہاں مخلوق کی اطاعت نہیں کی جائے گی۔ بخاری کی روایت ہے کہ نبی کریم ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) نے فرمایا، جس نے میری اطاعت کی، اس نے اللہ کی اطاعت کی، اور جس نے میری نافرمانی کی، اس نے اللہ کی نافرمانی کی، اور جس نے میرے امیر کی اطاعت کی، اس نے میری اطاعت کی، اور جس نے میرے امیر کی نافرمانی کی، اس نے میری نافرمانی کی۔ بخاری نے ابن عباس (رض) سے روایت کی ہے کہ یہ آیت عبداللہ بن حذافہ بن قیس بن عدی کے بارے میں نازل ہوئی تھی۔ امام احمد نے علی بن ابی طالب (رض) سے روایت کی ہے کہ رسول اللہ ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) نے ایک انصاری کی قیادت میں ایک فوجی دستہ بھیجا، دستہ کے امیر کسی بات پر لوگوں سے ناراض ہوگئے تو انہوں نے ایک آگ جلوائی اور لوگوں کو اس میں کودنے کے لیے کہا، دستہ کے ایک نوجوان نے لوگوں سے کہا کہ ہم لوگ رسول اللہ ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) پر ایمان اس لیے لائے ہیں تاکہ آگ سے بچیں، اس لیے ہم لوگ جلدی نہ کریں یہاں تک کہ رسول اللہ ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) سے پوچھ لیں جب انہوں نے واپس آنے کے بعد رسول اللہ ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) سے پوچھا تو آپ نے کہا کہ اگر تم لوگ اس میں کود جاتے تو اس سے کبھی نہ نکلتے، امیر یا قائد کی اطاعت بھلائی کے کام میں ہوتی ہے طیبی نے لکھا ہے کہ میں فعل کا اعادہ اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ رسول کی اطاعت مستقل ہے اور میں فعل کا عدم اعادہ اس پر دلالت کرتا ہے کہ ان کی اطاعت مشروط ہے۔ اگر ان کا حکم قرآن و سنت کے مطابق ہوگا تو اطاعت کی جائے گی، ورنہ نہیں۔ ابن عباس (رض) کے نزدیک اولی الامر سے مراد اہل فقہ و دین ہیں۔ اور مجاہد، عطا اور حسن بصری و غیرہم کے نزدیک اس سے مراد علماء ہیں، لیکن بظاہر حق یہ ہے کہ تمام اہل حل و عقد امراء اور علماء مراد ہیں 67۔ مجاہد اور دوسرے علمائے سلف نے کہا ہے کہ اللہ اور اس کے رسول کی طرف پھیر دو سے مقصود قرآن و سنت ہے۔ آیت کے اس حصہ میں مسلمانوں کو یہ حکم دیا گیا ہے کہ کسی بھی مسئلہ میں ان کے درمیان اختلاف ہو تو اس کا فیصلہ قرآن و سنت کے مطابق ہونا چاہیے، اللہ اور آخرت پر ایمان کا تقاضا یہی ہے۔ معلوم ہوا کہ جو شخص بھی کسی اختلافی مسئلہ میں قرآن و سنت کا حکم نہیں مانے گا، وہ اللہ اور یوم آخرت پر ایمان رکھنے والا نہیں مانا جائے گا، اس کے بعد اللہ نے فرمایا کہ قرآن و سنت کی طرف رجوع میں ہی ہر خیر ہے، اور انجام کے اعتبار سے بھی یہی عمل بہتر ہے