إِنَّ اللَّهَ يَأْمُرُكُمْ أَن تُؤَدُّوا الْأَمَانَاتِ إِلَىٰ أَهْلِهَا وَإِذَا حَكَمْتُم بَيْنَ النَّاسِ أَن تَحْكُمُوا بِالْعَدْلِ ۚ إِنَّ اللَّهَ نِعِمَّا يَعِظُكُم بِهِ ۗ إِنَّ اللَّهَ كَانَ سَمِيعًا بَصِيرًا
بے شک اللہ تمہیں حکم دیتا ہے کہ امانتیں (65) ان کے مالکوں تک پہنچا دو، اور جب لوگوں کے درمیان فیصلہ کرو، تو انصاف کے ساتھ کرو، بے شک اللہ تمہیں اچھی بات کی نصیحت کرتا ہے، بے شک اللہ خوب سننے والا اور دیکھنے والا ہے
65۔ اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو تاکید کی ہے کہ وہ امانتوں کی سختی سے حفاظت کریں، اور ان کی ادائیگی میں ذرا بھی کوتاہی نہ کریں، ابو داود ترمذی اور دارمی وغیرہم نے روایت کی ہے کہ رسول اللہ ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) نے فرمایا امانت والے کی امانت ادا کرو، اور جو خیانت کرے، اس کے ساتھ خیانت نہ کرو۔ حافظ ابن کثیر لکھتے ہیں کہ کلمہ امانت تمام قسم کی امانتوں کو شامل ہے، چاہے وہ اللہ کے حقوق ہوں، جیسے نماز زکاۃ اور روزہ وغیرہ اور چاہے بندوں کے آپس کے حقوق ہوں جو انہیں دنیا میں ادا نہیں کرے گا، تو مسلم و احمد کی روایت کردہ ایک صحیح حدیث کے مطابق انہیں قیامت میں ادا کرے گا، یہاں تک کہ بے سینگ کی بکری کا قصاص سینگ والی بکری سے لیا جائے گا۔ بہت سے مفسرین نے لکھا ہے کہ یہ آیت عثمان بن ابی طلحہ کے بارے میں فتح مکہ کے موقع سے نازل ہوئی، جس کے پاس خانہ کعبہ کی چابی ہوتی تھی، رسول اللہ ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) جب خانہ کعبہ کے پاس پہنچے تو عثمان کو بلا کر چابی لے لی اور کعبہ کا دروازہ کھلوا کر داخل ہوئے اور جب نکلے تو یہی آیت پڑھی، اور عثمان کو بلا کر چابی اس کے حوالے کردی، حافظ سیوطی کہتے ہیں کہ بظاہر ایسا معلوم ہوتا ہے کہ یہ آیت آپ پر اس وقت نازل ہوئی جب آپ کعبہ کے اندر تھے اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے عدل و انصاف کی تعریف فرمائی اور کہا کہ یہ بڑی اچھی چیز ہے جس کے برتنے کی اللہ تعالیٰ مسلمانوں کو تلقین کر رہا ہے، چاہے وہ حکام ہوں یا رعایا، اس لیے کہ پرامن اور شریفانہ زندگی کا دار و مدار اسی پر ہے کہ مسلم سوسائٹی میں انصاف کا چلن اور عدل کا دور دورہ ہو۔