أَلَمْ تَرَ إِلَى الَّذِينَ أُوتُوا نَصِيبًا مِّنَ الْكِتَابِ يُؤْمِنُونَ بِالْجِبْتِ وَالطَّاغُوتِ وَيَقُولُونَ لِلَّذِينَ كَفَرُوا هَٰؤُلَاءِ أَهْدَىٰ مِنَ الَّذِينَ آمَنُوا سَبِيلًا
کیا آپ نے ان لوگوں کو نہیں دیکھا (58) جنہیں کتاب الٰہی کا ایک حصہ دیا گیا ہے، کہ وہ بتوں اور شیطانوں پر ایمان رکھتے ہیں، اور کافروں کے بارے میں کہتے ہیں کہ یہ لوگ ایمان والوں کے مقابلہ میں زیادہ صحیح راستہ پر ہیں
58۔ ابن جریر نے ابن عباس (رض) سے روایت کی ہے کہ کعب بن اشرف یہودی کفار قریش کو مسلمانوں کے خلاف جنگ پر آمادہ کرنے کے لیے مکہ گیا، تو قریش نے اس سے کہا کہ تم اہل مدینہ میں سب سے معزز اور ان کے سردار ہو، ذرا اس حقیر و ذلیل آدمی کو دیکھ تو سہی، جو اپنی قوم سے بھی الگ ہوگیا ہے، اور اس زعم میں مبتلا ہے کہ وہ ہم سے بہتر ہے، حالانکہ حاجیوں کی خدمت کرنا، انہیں پانی پلانا، اور بیت اللہ کی نگرانی کرنا ہمارا کام ہے، یہ سن کر کعب نے کہا کہ تم لوگ اس سے بہتر ہو، تو اللہ نے ، اور یہ آیت نازل فرمائی اور کعب بن اشرف اور اس جیسے اللہ اور رسول کے دیگر دشمنوں کا راز فاش کیا، اور ان کا کفر واضح کردیا، اس واقعہ کو امام احمد نے محمد بن عدی سے، اور ابن حبان نے اپنی کتاب الصحیح میں روایت کی ہے۔ بعض روایتوں میں آتا ہے کہ کعب بن اشرف اور حیی بن اخطب غزوہ احد کے بعد مکہ کے مشرکین کو مسلمانوں کے خلاف ایک بڑی فیصلہ کن جنگ پر آمادہ کرنے کے لیے گئے تھے۔ جبت سے مراد بت، کاہن جادوگر، جادو اور ہر وہ چیز ہے جس کی اللہ کے علاوہ عبادت کی جائے، اسی طرح طاغوت سے مراد کاہن، شیطان ہر گمراہ کن شے، بت سردارانِ یہود، اور ہر وہ چیز ہے جس کی اللہ کے سوا عبادت کی جاتی ہے، اہل کفر سے مراد مشرکین مکہ ہیں۔