ضَرَبَ اللَّهُ مَثَلًا لِّلَّذِينَ كَفَرُوا امْرَأَتَ نُوحٍ وَامْرَأَتَ لُوطٍ ۖ كَانَتَا تَحْتَ عَبْدَيْنِ مِنْ عِبَادِنَا صَالِحَيْنِ فَخَانَتَاهُمَا فَلَمْ يُغْنِيَا عَنْهُمَا مِنَ اللَّهِ شَيْئًا وَقِيلَ ادْخُلَا النَّارَ مَعَ الدَّاخِلِينَ
اللہ نے کافروں کے لئے مثال (٩) دی ہے نوح کی بیوی کی اور لوط کی بیوی کی، دونوں ہمارے بندوں میں سے دو نیک بندوں کے نکاح میں تھیں، ان دونوں (عورتوں) نے ان دونوں (نیک بندوں) کے ساتھ خیانت کی، تو وہ دونوں اللہ کے مقابلے میں ان کے کچھ بھی کام نہ آسکے، اور ان سے کہا جائے گا کہ تم دونوں آگ میں داخل ہونے والوں کے ساتھ داخل ہوجاؤ
(10) آیات (10/11/12) میں اللہ تعالیٰ نے مؤمنوں اور کافروں کی حالت بیان کرنے کیلئے دو مثالیں بیان کی ہیں، تاکہ معلوم ہوجائے کہ کسی کافر کی مؤمن سے قربت، کفر کے ساتھ اسے کوئی فائدہ نہیں پہنچائے گی، اور کسی مؤمن کا کسی کافر سے اتصال اگر وہ ایمان باللہ کے تقاضوں کو پورا کرتا ہے، اسے کوئی نقصان نہیں پہنچائے گا۔ مفسرین لکھتے ہیں کہ اس آیت کریمہ میں نبی کریم (ﷺ) کی بیویوں کو تنبیہ کی گئی ہے اور انہیں ارتکاب معصیت سے خوف دلایا گیا ہے اور خبر دی گئی ہے کہ اگر وہ اپنی نیت اور اپنا عمل درست نہیں کریں گی تو نبی کریم (ﷺ) سے ان کا اتصال کچھ بھی فائدہ نہیں پہنچائے گا۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اس نے کافروں کے لئے نوح اور لوط کی بیویوں کی مثال بیان کی ہے، ان دونوں کے شوہر یعنی نوح ولوط علیہما السلام اللہ کے نیک بندے اور نبی تھے، لیکن ان دونوں بیویوں نے دین میں اپنے شوہروں کے ساتھ خیانت کی یعنی ان کے لائے ہوئے دین کو قبول نہیں کیا تو انبیاء سے ان کا اتصال انہیں قیامت کے دن اللہ کے عذاب سے بچا نہ سکا اور ان سے کہا جائے گا کہ تم دونوں ان جہنمیوں کے ساتھ جہنم میں داخل ہوجاؤ جن کا انبیاء سے کوئی اتصال نہیں رہا ہے۔ آیت میں ” خیانت“ سے مراد ان انبیاء کے دین کو قبول نہ کرنا ہے، عزت و ناموس میں خیانت ہرگز مراد نہیں ہے، اس لئے کہ کسی نبی کی بیوی زانیہ نہیں ہوئی اور یہ ہرگز مناسب نہیں تھا کہ کسی نبی کی بیوی زانیہ ہوتی۔