وَيَرْزُقْهُ مِنْ حَيْثُ لَا يَحْتَسِبُ ۚ وَمَن يَتَوَكَّلْ عَلَى اللَّهِ فَهُوَ حَسْبُهُ ۚ إِنَّ اللَّهَ بَالِغُ أَمْرِهِ ۚ قَدْ جَعَلَ اللَّهُ لِكُلِّ شَيْءٍ قَدْرًا
اور اسے ایسی جگہ سے روزی پہنچا تا ہے جہاں کا اسے گمان بھی نہیں ہوتا، اور جو اللہ پر بھروسہ کرتا ہے تو وہ اس کو کافی ہوتا ہے، بے شک اللہ اپنا کام پورا کرکے رہتا ہے، اللہ نے ہر چیز کا ایک اندازہ مقرر کردیا ہے
سے آیت (3) کے آخر تک اللہ تعالیٰ نے اپنے مؤمن بندوں کو نصیحت کی ہے کہ جو شخص اللہ کے عذاب و عقاب سے ڈرتے ہوئے اس کے اوامر کی پابندی کرے گا نواہی سے بچے گا اور اس کے حدود کا پاس و لحاظ رکھے گا، اللہ تعالیٰ اس کے لئے شدائد و محن سے نکلنے کے لئے راستے بنا دے گا اور اس کے لئے ایسی جگہ سے روزی کا سامان کر دے گا جو اس کے شان و گمان میں بھی نہیں تھا۔ مفسرین لکھتے ہیں کہ آیت کا مفہوم عام ہے، جس میں سنت کے مطابق طلاق دینے والا شخص بدرجہ اولی داخل ہے کہ اللہ تعالیٰ یا تو اس کے دل میں مطلقہ بیوی کو واپس لے لینے کی بات ڈال دے گا، یا عدت گذر جانے کے بعد اس کے لئے دوبارہ اس سے شادی کرنے کی گنجائش باقی رہے گی۔ اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ جو شخص اپنے تمام امور میں صرف اللہ پر بھروسہ کرتا ہے، اور اس کے فرائض و واجبات کو ضائع نہیں کرتا اللہ ہر حال میں اس کا حامی و ناصر ہوتا ہے، نیز فرمایا کہ اللہ جو ارادہ کرتا ہے، اسے بہرحال واقع ہونا ہے۔ اللہ تعالیٰ کو کوئی عاجز نہیں بنا سکتا اور اللہ تعالیٰ نے ہر کام کا مکان و زمان مقرر کردیا ہے، جس سے وہ آگے یا پیچھے نہیں ہو سکتا اور نہ اس میں کمی یا زیادتی ہو سکتی ہے اس لئے مؤمن کو اس کی تقدیر پر راضی رہنا چاہئے۔