سورة الطلاق - آیت 1

يَا أَيُّهَا النَّبِيُّ إِذَا طَلَّقْتُمُ النِّسَاءَ فَطَلِّقُوهُنَّ لِعِدَّتِهِنَّ وَأَحْصُوا الْعِدَّةَ ۖ وَاتَّقُوا اللَّهَ رَبَّكُمْ ۖ لَا تُخْرِجُوهُنَّ مِن بُيُوتِهِنَّ وَلَا يَخْرُجْنَ إِلَّا أَن يَأْتِينَ بِفَاحِشَةٍ مُّبَيِّنَةٍ ۚ وَتِلْكَ حُدُودُ اللَّهِ ۚ وَمَن يَتَعَدَّ حُدُودَ اللَّهِ فَقَدْ ظَلَمَ نَفْسَهُ ۚ لَا تَدْرِي لَعَلَّ اللَّهَ يُحْدِثُ بَعْدَ ذَٰلِكَ أَمْرًا

ترجمہ تیسیر الرحمن لبیان القرآن - محمد لقمان سلفی صاحب

اے نبی ! جب تم لوگ عورتوں کو طلاق (١) دو تو ان کی عدت کی ابتدا میں طلاق دو، اور عدت کو گن لیا کرو، اور اس بارے میں اللہ سے ڈرتے رہو جو تمہارا رب ہے، انہیں ان کے گھروں سے نہ نکالو، اور نہ وہ اپنے گھروں سے خود نکلیں، مگر یہ کہ وہ کسی کھلی برائی کا ارتکاب کر بیٹھیں، اور یہ احکام اللہ کے حدود ہیں، اور جو شخص اللہ کے حدود کو تجاوز کرے گا وہ اپنے آپ پر ظلم کرے گا۔ آپ نہیں جانتے، شاید اللہ اس (طلاق) کے بعد کئی نئی سبیل پیدا کر دے

تیسیر الرحمن لبیان القرآن - محمد لقمان السلفی رحمہ اللہ

(1) ابن ابی حاتم نے انس بن مالک (رض) سے روایت کی ہے کہ نبی کریم (ﷺ) نے حفصہ (رض) کو طلاق دے دی، تو وہ اپنے باپ ماں کے پاس چلی گئیں تب یہ آیت نازل ہوئی اور آپ (ﷺ) سے کہا گیا کہ وہ حفصہ کو واپس لے لیں، اس لئے کہ وہ روزہ دار اور تہجد گذار ہیں اور جنت میں آپ کی بیویوں میں سے ہوں گی ہیثمی نے مجمع الزوائد (4/633) میں لکھا ہے کہ اس حدیث کو بزار اور ابویعلی نے روایت کی ہے اور ابویعلی کی سند کے رواۃ صحیح بخاری کے رواۃ ہیں۔ اس آیت کریمہ میں اللہ تعالیٰ نے پہلے نبی کریم (ﷺ) اور پھر آپ کی امت کو مخاطب کر کے فرمایا ہے کہ مسلمانو ! جب تم کسی ضروری امر کی وجہ سے اپنی بیویوں کو طلاق دینی چاہو، تو اس بارے میں اللہ کے اوامر کا لحاظ کئے بغیر فوراً ہی طلاق نہ دے دو، بلکہ مشروع طریقہ کے مطابق طلاق دو، یعنی ایسے ” طہر“ میں طلاق دو جس میں تم نے ان کے ساتھ جماع نہ کیا ہو، تاکہ ان کی عدت کی مدت واضح اور معلوم رہے اس لئے کہ اگر تم انہیں حالت حیض میں طلاق دو گے، تو وہ حیض عدت میں شمار نہیں ہوگا۔ اور ان کی عدت کا زمانہ طویل ہوجائے گا ، اسی طرح اگر تم انہیں ایسے ” طہر“ میں طلاق دو گے، جس میں ان کے ساتھ جماع کیا ہے تو ممکن ہے کہ حمل قرار پا جائے اور معلوم نہ ہو سکے گا کہ اس کی عدت کے لئے ماہواری کا اعتبار ہوگا یا وضع حمل کا ۔ اور مسلمانو ! اپنی مطلقہ بیویوں کی عدت کا زمانہ ٹھیک سے یاد کرلو، اگر عورت ایسی ہے جسے ماہواری آتی ہے تو تین ماہواری کے ذریعہ اور اگر ماہواری بند ہوچکی ہے تو مہینوں کے شمار کے ذریعہ، یا حاملہ ہے تو وضع حمل کے ذریعہ اس لئے کہ اس کے ذریعہ اللہ تعالیٰ کے حق، طلاق دینے والے شوہر کے حق اور اس مرد کے حق کی حفاظت ہوتی ہے جو اس عورت سے آئندہ شادی کرنا چاہے گا، نیز مطلقہ عورت کے حق نان و نفقہ کی حفاظت ہوتی ہے۔ اور مسلمانو ! اپنے تمام امور میں اللہ سے ڈرتے رہو جو تمہارا رب ہے اور ان مطلقہ عورتوں کو ان گھروں سے نکل جانے پر مجبور نہ کرو جن میں طلاق کے وقت وہ رہائش پذیر تھیں اس لئے کہ زمانہ عدت میں اس کی رہائش کی ذمہ داری شوہر پر ہے، اور ان عورتوں کے لئے بھی جائز نہیں ہے کہ وہ وہاں سے نکل کر کہیں اور چلی جائیں اس لئے کہ زمانہ عدت میں وہ شوہر کی زوجیت میں ہی باقی رہتی ہیں۔ البتہ اگر مطلقہ عورت زنا یا کسی ایسے برے قول یا فعل کا ارتکاب کر بیٹھتی ہے جو اہل خانہ کی ذلت و رسوائی کا سبب ہو تو ایسی صورت میں اس گھر سے اس کا نکال دینا جائز ہوگا، کیونکہ شریعت نے ” رہائش“ کو شہر کے ذمہ اس کی رعایت کرتے ہوئے واجب قرار دیا تھا اور جب وہ خود کو ئی ایسی حرکت کر بیٹھی جو شوہر اور اس کے گھر والوں کے لئے پریشانی کا سبب بن گئی، تو اس کا وہاں سے نکال دینا جائز ہوگیا۔ اگر مطلقہ بائنہ ہے تو اس کے لئے رہائش واجب نہیں ہے، اس لئے کہ رہائش نان و نفقہ کے تابع ہے اور نفقہ مطلقہ رجعیہ کے لئے ہے نہ کہ بائنہ کے لئے اللہ تعالیٰ نے فرمایا : مسلمانو ! اوپر جو احکام بیان کئے گئے ہیں وہ اللہ کے حدود ہیں، ان سے تجاوز کرنا تمہارے لئے جائز نہیں ہے اور اس صراحت کے باوجود اگر کوئی شخص ان حدود سے تجاوز کرتا ہے تو وہ اپنے آپ پر ظلم کرتا ہے اور جلدی یا دیر سے اللہ کی سزا کا حقدار بنتا ہے مسلمانو ! تمہیں معلوم نہیں کہ زمانہ عدت سے متعلق جو احکام اوپر بیان کئے گئے ہیں، ان میں اللہ نے کیا حکمتیں مضمر رکھی ہیں، ممکن ہے کہ شوہر کے دل میں اللہ تعالیٰ مطلقہ کی محبت دوبارہ ڈال دے اور اسے واپس کرلے اور پھر سے عمدہ ازدواجی زندگی گذارنے لگے، ہوسکتا ہے کہ طلاق کا سبب بیوی کی جانب سے رہا ہو، اور زمانہ عدت میں وہ سبب زائل ہوجائے اور شوہر اسے واپس لے لے اور ایک ظاہر حکمت یہ بھی ہے کہ زمانہ عدت کے ختم ہونے تک یقین ہوجاتا ہے کہ عورت کا رحم طلاق دینے والے شوہر کے بچہ سے پاک و صاف ہے۔ کی جو تفسیر اوپر بیان کی گئی ہے کہ اس سے مراد یہ ہے کہ طلاق ایسے ” طھر“ میں دی جائے جس میں اس کے ساتھ جماع نہ کیا گیا ہو اسی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے حافظ ابن کثیر نے لکھا ہے کہ فقہاء نے اسی سے استفادہ کرتے ہوئے طلاق کی تین قسمیں بتائی ہیں، پہلی ” طلاق سنت“ ہے یعنی آدمی اپنی بیوی کو ایسے ” طہر“ میں طلاق دے جس میں اس کے ساتھ جماع نہ کیا ہو، یا وہ حاملہ ہو جس کا حمل ظاہر ہوچکا ہو دوسری ” طلاق بدعت“ ہے یعنی شوہر اپنی بیوی کو حالت حیض میں یا ایسے ” طہر“ میں طلاق دے جس میں اس کے ساتھ جماع کیا ہو اور تیسری قسم ” نہ طلاق سنت ہے نہ طلاق بدعت“ یعنی مطلقہ نا بالغہ ہو، یا بوڑھی ہوگئی ہو یا جوابھی اپنے شوہر سے نہ ملی ہو۔ طلاق بدعی کے بارے میں علمائے اسلام کی دورائے ہے : جمہور کا خیال ہے کہ طلاق واقع ہوجائے گی اور شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ، ان کے شاگرد امام ابن القیم اور اکثر محدثین کی رائے ہے کہ طلاق بدعی حرام ہے اور واقع نہیں ہوتی ہے نیز ان کا یہ بھی خیال ہے کہ اگر کوئی شخص ایک ہی مجلس میں تین طلاقیں دے دے گا تو صرف ایک ہی واقع ہوگی، اس لئے کہ جس طرح حیض میں اور ایسے ” طہر“ میں طلاق دینا ناجائز ہے جس میں شوہر نے جماع کیا ہو اور طلاق واقع نہیں ہوتی، اسی طرح ایک مجلس کی تین طلاقیں بھی حرام ہیں اس لئے صرف ایک ہی واقع ہوگی، باقی دو طلاقیں لغو قرار دے دی جائیں گی۔