هُوَ الَّذِي خَلَقَكُمْ فَمِنكُمْ كَافِرٌ وَمِنكُم مُّؤْمِنٌ ۚ وَاللَّهُ بِمَا تَعْمَلُونَ بَصِيرٌ
اسی نے تم سب کو پیدا (٢) کیا ہے، تو تم میں سے بعض کافر ہے، اور بعض مومن، اور تم جو کچھ کرتے ہو اسے اللہ خوب دیکھ رہا ہے
(2) مفسر ابوالسعود نے اس کی تفسیر یوں بیان کی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انسانوں کو سب سے اچھی شکل میں پیدا کیا، ان میں علمی اور عملی کمالات کو قبول کرنے کی صلاحیت ودیعت کی، لیکن ان میں سے بعض نے اپنی خلقت کے تقاضے کے خلاف کلمہ حق کا انکار کر کے کفر کو اختیار کرلیا اور بعض نے اپنی خلقت کے تقاضے کے مطابق ایمان باللہ کی راہ اختیار کی اور اس پر چل پڑے، ان کی تخلیق کا تقاضا یہ تھا کہ وہ سب کے سب صرف ایمان کو ہی اختیار کرتے اور اپنے خالق و موجد کی نعمت خلق اور اس کی دیگر نعمتوں کا شکر ادا کرتے، لیکن انہوں نے ایسا نہیں کیا، بلکہ مختلف گروہوں اور ٹولیوں میں بٹ گئے۔ مفسرین لکھتے ہیں، مؤمن سے پہلے کافر کا ذکر اس لئے آیا ہے کہ مکی زندگی میں کفار ہی اکثریت میں تھے اور اس لئے بھی کہ مقام زجر و توبیخ اس کا تقاضا کرتا ہے۔ آیت کے آخر میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ لوگو ! اللہ تمہارے اعمال سے اچھی طرح باخبر ہے، ایک ذرہ بھی اس سے مخفی نہیں ہے، اور وہ ضرور تمہیں تمہاے ان اعمال کے مطابق بدلہ دے گا۔