وَإِذَا رَأَيْتَهُمْ تُعْجِبُكَ أَجْسَامُهُمْ ۖ وَإِن يَقُولُوا تَسْمَعْ لِقَوْلِهِمْ ۖ كَأَنَّهُمْ خُشُبٌ مُّسَنَّدَةٌ ۖ يَحْسَبُونَ كُلَّ صَيْحَةٍ عَلَيْهِمْ ۚ هُمُ الْعَدُوُّ فَاحْذَرْهُمْ ۚ قَاتَلَهُمُ اللَّهُ ۖ أَنَّىٰ يُؤْفَكُونَ
اور آپ جب انہیں دیکھتے (٣) ہیں تو ان کے جسم آپ کو بہت اچھے لگتے ہیں، اور اگر وہ بات کرتے ہیں تو آپ ان کی گفتگو غور سے سنتے ہیں، وہ عقل و فہم اور خیر کی توفیق سے ایسے بے بہرہ ہیں جیسے دیوار سے ٹیک لگائی گئی لکڑیاں، ہر چیخ پر انہیں یہی گمان ہوتا ہے کہ یہ انہی کے خلاف ہے، وہی لوگ حقیقی دشمن ہیں، آپ ان سے بچتے رہئے، اللہ انہیں ہلاک کر دے، وہ کدھر بہکے جا رہے ہیں
(4) عبداللہ بن ابی اور دیگر منافقین کی حالت پر مزید روشنی ڈالتے ہوئے، اللہ تعالیٰ نے نبی کریم (ﷺ) سے فرمایا کہ جب آپ ان منافقین کو دیکھتےہیں تو بظاہر ان کی شکل و صورت بڑی اچھی لگتی ہے، ان کے اجسام خوبصورت معلوم ہوتے ہیں اور ان کی چرب زبانی کی وجہ سے ان کی باتیں بھی آپ کو اچھی لگتی ہیں، لیکن وہ فہم و تدبر اور ہر قسم کے روحانی فائدے سے ایسے ہی عاری ہیں جیسے کہ لکڑی جسے دیوار سے لگا کر کھڑی کردی جاتی ہے، نہ وہ کسی عمارت میں لگی ہوتی ہے اور نہ ہی کسی اور چیز کو سہارا دیتی ہے، یعنی بے کار محض ہوتی ہے، بعینہ یہی حال منافقین کے اجسام کا ہے جو حقیقی روح اور زندگی سے خالی ہیں۔ اور چونکہ ہر وقت انہیں خوف لاحق ہوتا ہے کہ نہ جانے کب اللہ تعالیٰ اپنے نبی پر وحی نازل کر کے ان کا پردہ فاش کر دے ان کے قید و بند اور قتل کا حکم دے دے اور ان کے اموال اور ان کی اولاد کو ان کے حلال بنا دے، اس لئے ہر سرسراہٹ پر ان کے کان کھڑے ہوجاتے ہیں اور چونک اٹھتے ہیں کہ کہیں ان کے بارے میں اللہ کا حکم آ تو نہیں گیا۔ اللہ تعالیٰ نے آگے فرمایا کہ اے میرے نبی ! یہ منافقین آپ کے پکے دشمن ہیں، یہ لوگ دل سے آپ کے دشمنوں کے ساتھ ہیں اور ہر آن انتظار میں ہیں کہ کب آپ پر اور مسلمانوں پر کوئی مصیبت نازل ہوجائے۔ اللہ تعالیٰ کی ان پر مار ہو، راہ حق سے کیسے دور ہوتے جا رہے ہیں، قرآن نازل ہو رہا ہے، رسول اللہ (ﷺ) لوگوں کو تعلیم دے رہے ہیں اور دعوتی کوششوں کے اچھے آثار مؤمنوں کے اقوال و افعال اور اخلاق و افکار پر ظاہر ہو رہے ہیں لیکن دل کے اندھوں کو کچھ بھی نظر نہیں آتا ہے۔