وَالَّذِينَ تَبَوَّءُوا الدَّارَ وَالْإِيمَانَ مِن قَبْلِهِمْ يُحِبُّونَ مَنْ هَاجَرَ إِلَيْهِمْ وَلَا يَجِدُونَ فِي صُدُورِهِمْ حَاجَةً مِّمَّا أُوتُوا وَيُؤْثِرُونَ عَلَىٰ أَنفُسِهِمْ وَلَوْ كَانَ بِهِمْ خَصَاصَةٌ ۚ وَمَن يُوقَ شُحَّ نَفْسِهِ فَأُولَٰئِكَ هُمُ الْمُفْلِحُونَ
اور (وہ مال) ان لوگوں کے لئے ہے، جو مہاجرین مکہ کی آمد سے پہلے ہی مدینہ میں مقیم (٧) تھے اور ایمان لا چکے تھے، وہ لوگ مہاجرین سے محبت کرتے ہیں، اور ان مہاجرین کو جو مال غنیمت دیا گیا ہے، اس کے لئے وہ اپنے دلوں میں تنگی اور حسد نہیں محسوس کرتے ہیں۔ اور انہیں اپنے آپ پر ترجیح دیتے ہیں، اگرچہ وہ خود تنگی میں ہوں، اور جو لوگ اپنے نفس کی تنگی اور بخل سے بچا لئے جائیں وہی کامیاب ہونے والے ہیں
(7) اللہ تعالیٰ نے ان کے دینی بھائیوں، یعنی انصار کو بھی کیا ہی خوب بنایا تھا اور ایثار و قربانی کے جذبہ سے کیسا نوازا تھا کہ اس نے اس آیت کریمہ میں ان کے لئے ایمان صادق، اپنے مہاجر بھائیوں سے سچی محبت اور جذبہ ایثار و قربانی کی گواہی دی اور فرمایا کہ جو مومنین دارالہجرت (مدینہ) میں پہلے سے آباد ہیں اور مہاجرین کی آمد سے پہلے ایمان و ایقان کی شمع ان کے دلوں میں روشن ہوچکی ہے، وہ تو اپنے مہاجر بھائیوں سے بڑی محبت کرتے ہیں اور چاہے مہاجرین کو رسول اللہ (ﷺ) کی طرف سے جو کچھ بھی دے دیا جائے وہ لوگ اپنے دل میں ذرا بھی تنگی نہیں محسوس کرتے ہیں اور اپنے گھروں میں حاجت اور فاقہ کشی ہونے کے باوجود ہمیشہ یہی چاہتے ہیں کہ ان کے مہاجر بھائی آرام سے رہیں اور ان کے بال بچوں کو تکلیف نہ پہنچے اور ان کے انہی صفات عالیہ اور اخلاق فاضلہ کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے آیت کے آخر میں فرمایا کہ ان کے دلوں سے مال کی غیر شرعی محبت نکال دی گئی ہے، یہ لوگ اللہ کی راہ میں خرچ کرنے سے ذرا بھی نہیں کتراتے، اسی لئے اللہ تعالیٰ نے وعدہ کیا کہ وہ انہیں دونوں جہان کی سعادت و نیک بختی سے نوازے گا۔ ” شح“ عربی زبان میں بخل کو کہتے ہیں ابن جریر نے لکھا ہے کہ یہاں اس سے مقصود لوگوں کا مال ناحق کھا جاتا ہے۔ سعید بن جبیر کا قول ہے کہ اس کا معنی ” حرام مال کھانا اور زکاۃ نہ دینا ہے“ ابن زید کہتے ہیں کہ جس نے مال حرام نہیں لیا اور اللہ نے جو دینے کا حکم دیا ہے اسے نہیں روکا، وہ ” شح نفس“ سے بچ گیا۔ انصار صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین اللہ کی شہادت کے مطابق اس ایمانی اور اخلاقی بیماری سے پاک تھے۔ امام بخاری نے اس آیت کی تفسیر میں عمر بن خطاب (رض) سے روایت کی ہے، انہوں نے کہا کہ میں اپنے آنے والے خلیفہ کو ” مہاجرین اولین“ کے حقوق کی حفاظت اور ان کا احترام محلوظ رکھنے کی وصیت کرتا ہوں اور انصار کا خیال رکھنے کی نصیحت کرتا ہوں جو دارالہجرت (مدینہ) میں پہلے سے آباد ہیں اور جو مہاجرین کی آمد کے قبل سے ہی اپنے دلوں میں ایمان کی شمع جلائے بیٹھے ہیں۔ بخاری و مسلم کی روایت ہے کہ ابوطلحہ انصاری (رض) کے بارے میں نازل ہوئی تھی جنہوں نے رسول اللہ (ﷺ) کے کہنے پر ایک بھوکے مسافر کی اپنے گھر میں دعوت کی، اپنے بچوں کو بھوکا سلادیا اور چراغ بجھا کر اپنا اور اپنے بال بچوں کا کھانا رسول اللہ (ﷺ) کے اس بھوکے مہمان کو کھلا دیا تھا۔