مَّا أَفَاءَ اللَّهُ عَلَىٰ رَسُولِهِ مِنْ أَهْلِ الْقُرَىٰ فَلِلَّهِ وَلِلرَّسُولِ وَلِذِي الْقُرْبَىٰ وَالْيَتَامَىٰ وَالْمَسَاكِينِ وَابْنِ السَّبِيلِ كَيْ لَا يَكُونَ دُولَةً بَيْنَ الْأَغْنِيَاءِ مِنكُمْ ۚ وَمَا آتَاكُمُ الرَّسُولُ فَخُذُوهُ وَمَا نَهَاكُمْ عَنْهُ فَانتَهُوا ۚ وَاتَّقُوا اللَّهَ ۖ إِنَّ اللَّهَ شَدِيدُ الْعِقَابِ
اللہ نے اپنے رسول کو دیہات والوں سے جو مال دلوایا، تو وہ اللہ کے لئے ہے، اور رسول کے لئے، اور رشتہ داروں، اور یتیموں، اور مسکینوں اور مسافر کے لئے ہے، تاکہ وہ مال تمہارے مالداروں کے درمیان ہی نہ گھومتا رہ جائے، اور رسول تمہیں جو دیں اسے لے لو، اور جس چیز سے وہ تم کو روک دیں اس سے رک جاؤ، اور اللہ سے ڈرتے رہو، بے شک اللہ سخت عذاب دینے والا ہے
آیت (7) میں آیت (6) کی تشریح کی گئی ہے، اسی لئے دونوں کے درمیان حرف عطف نہیں استعمال کیا گیا ہے، اور سے مراد بنی نضیر کے یہود ہیں اور اس مال کا حکم یہ ہے کہ یہ اللہ، اس کے رسول، رسول اللہ کے رشتہ داروں، یتیموں، مسکینوں اور مسافروں کیلئے ہے، ایسا نہیں ہے کہ اسے بھی مال غنیمت کی طرح تقسیم کردیا جائے تاکہ مالدار مزید مالدار بن جائیں، اور فقرائے صحابہ کی محتاجی دور نہ ہو۔ کا ایک مفہوم یہ بھی بیان کیا گیا ہے کہ دور جاہلیت میں یہ نظام تھا کہ اموال غنائم صرف مالداروں میں تقسیم ہوتے تھے، اللہ تعالیٰ نے رسم جاہلی کو توڑنے کے لئے آیت کا یہ حصہ نازل فرمایا اور بتایا کہ اموال غنیمت میں تمام مجاہدین کا حق ہے، اور ” مال فئی“ میں رسول اللہ (ﷺ) اپنی مرضی کے مطابق تصرف کریں گے۔ بعض مفسرین کا خیال ہے جسے ابن جریر نے نقل کیا ہے کہ سورۃ الحشر کی یہ آیت مجمل ہے جس کی تفصیل سورۃ الانفال کی آیت (41) میں بیان کی گئی ہے بلکہ قتادہ کا قول ہے کہ سورۃ الحشر کی یہ آیت سورۃ الانفال کی مذکورہ بالا آیت کے ذریعہ منسوخ ہوچکی ہے، یعنی ” مال فئی“ اب کوئی چیز نہیں ہے، سب پر مال غنیمت کا ہی اطلاق ہوگا اور اموال غنیمت پہلے پانچ حصوں میں تقسیم کئے جائیں گے، چار حصے مجاہدین کے لئے اور پانچواں حصہ پھر پانچ حصوں میں تقسیم کیا جائے گا، ایک حصہ اللہ اور اس کے رسول کے لئے ایک حصہ رسول اللہ (ﷺ) کی زندگی میں ان کے رشتہ داروں کے لئے، ایک حصہ یتیموں کے لئے، ایک حصہ مساکین کے لئے اور ایک حصہ مسافروں کے لئے آیت کے آخر میں اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو نصیحت کی ہے کہ انہیں رسول اللہ (ﷺ) کی طرف سے جو ملے اس پر راضی رہنا چاہئے اور اگر آپ (ﷺ) انہیں کچھ نہ بھی دیں تو تب بھی ان کے فیصلے پر راضی رہنا چاہئے اس میں اموال غنیمت اموال فئی اور دیگرتمام چیزیں داخل ہیں، علماء نے اسی آیت سے استدلال کر کے کہا ہے کہ نبی کریم (ﷺ) کی ہر صحیح حدیث قرآن کے حکم میں داخل ہے۔