هُوَ الَّذِي أَخْرَجَ الَّذِينَ كَفَرُوا مِنْ أَهْلِ الْكِتَابِ مِن دِيَارِهِمْ لِأَوَّلِ الْحَشْرِ ۚ مَا ظَنَنتُمْ أَن يَخْرُجُوا ۖ وَظَنُّوا أَنَّهُم مَّانِعَتُهُمْ حُصُونُهُم مِّنَ اللَّهِ فَأَتَاهُمُ اللَّهُ مِنْ حَيْثُ لَمْ يَحْتَسِبُوا ۖ وَقَذَفَ فِي قُلُوبِهِمُ الرُّعْبَ ۚ يُخْرِبُونَ بُيُوتَهُم بِأَيْدِيهِمْ وَأَيْدِي الْمُؤْمِنِينَ فَاعْتَبِرُوا يَا أُولِي الْأَبْصَارِ
اسی نے اہل کتاب (٢) کافروں کو ان کے گھروں سے نکال کر ان کے پہلے حشر (یعنی پہلی جلا وطنی) کی جگہ پہنچا دیا۔ مسلمانو ! تم تو سوچ بھی نہیں سکتے تھے کہ وہ (مدینہ سے) نکل جائیں گے، اور وہ سمجھتے تھے کہ ان کے قلعے انہیں اللہ کے عذاب سے بچا لیں گے، پس اللہ کا عذاب ان پر ایسی جگہ سے آیا جس کا وہ گمان بھی نہیں کرسکتے تھے، اور اللہ نے ان کے دلوں میں رعب ڈال دیا، چنانچہ وہ اپنے گھروں کو اپنے ہاتھوں اور مسلمانوں کے ہاتھوں خراب کرنے لگے، پس اے آنکھوں والے ! تم لوگ عبرت حاصل کرو
(2) آیت میں مذکور اہل کتاب کافروں سے مراد بنی نضیر ہیں جو ہارون (علیہ السلام) کی اولاد سے تھے اور رومانیوں کے ظلم سے تنگ آ کر مدینہ چلے آئے تھے اور رسول اللہ (ﷺ) کی بعثت کا انتظار کرتے تھے جب آپ مکہ سے ہجرت کر کے مدینہ آئے تو آپ سے دشمنی کرنے لگے اور نوبت بایں جارسید کہ آپ نے انہیں مدینہ سے جلا وطن کردیا، جسے اس آیت میں ” اول حشر“ سے تعبیر کیا گیا ہے، ابن العربی نے لکھا ہے کہ ان کا پہلا حشر مدینہ سے خیبر کی طرف جلا وطن ہونا تھا اور دوسرا حشر خیبر سے شام کی طرف ان کی جلا وطنی تھی اور آخری حشر قیامت کے دن ہوگا کہاجاتا ہے کہ سر زمین شام ہی میدان محشر بنے گی، عکرمہ کا قول ہے جسے قیامت کے دن سر زمین شام کے میدان محشر بننے میں شبہ ہو وہ اس آیت کو پڑھے۔ بنی نضیر کے قلعے بڑے مضبوط تھے اور وہ اپنی حفاظت کے لئے ہر طرح کا ساز و سامان بھی رکھتے تھے اس لئے صحابہ کرام کے شان و گمان میں بھی یہ بات نہیں تھی کہ وہ اپنے محلات اور قصور چھوڑ کر چلے جانے پر مجبور ہوجائیں گے، لیکن اللہ تعالیٰ نے ان کے دلوں میں ایسا رعب ڈال دیا کہ انہوں نے اپنی جلا وطنی قبول کرلی اور صدیوں سے جمے جمائے گھروں اور مال و دولت کو چھوڑ کر وہاں سے ہمیشہ کے لئے نکل گئے۔ الآیۃ کی تفسیر یہ بیان کی گئی ہے کہ جب انہیں اپنی جلا وطنی کا یقین ہوگیا تو سوچا کہ اب ان گھروں پر مسلمان قابض ہوجائیں گے، اس لئے انہوں نے شدت حسد میں آ کر ان گھروں کو اندر سے خراب کرنا شروع کردیا اور مسلمان انہیں مزید تکلیف پہنچانے کے لئے ان گھروں کو باہر سے خراب کرنے لگے اور ان کے کھجور کے درختوں کو کاٹنے لگے۔ زہری، ابن زید اور عروۃ بن زبیر کہتے ہیں کہ جب نبی کریم (ﷺ) ان کے اس طلب پر راضی ہوگئے کہ وہ اپنے اونٹوں پر جتنا سامان لاد کرلے جا سکیں لے جائیں تو اپنے گھروں سے لکڑیوں اور کھمبوں کو نکال کر اپنے اونٹوں پر لادنے لگے اور جو حصہ باقی بچا اسے مسلمانوں نے خراب کردیا۔ آیت کے آخر میں اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو اس واقعہ سے عبرت حاصل کرنے کی نصیحت کی ہے کہ زمین میں فساد پھیلانے والوں پر کس طرح اللہ کا عذاب نازل ہوتا ہے اور اللہ کے وعدہ نصرت و تائید اور اپنے دشمنوں کے لئے انجام بد کی وعید دونوں میں کتنی صداقت ہوتی ہے۔