لَّا تَجِدُ قَوْمًا يُؤْمِنُونَ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ يُوَادُّونَ مَنْ حَادَّ اللَّهَ وَرَسُولَهُ وَلَوْ كَانُوا آبَاءَهُمْ أَوْ أَبْنَاءَهُمْ أَوْ إِخْوَانَهُمْ أَوْ عَشِيرَتَهُمْ ۚ أُولَٰئِكَ كَتَبَ فِي قُلُوبِهِمُ الْإِيمَانَ وَأَيَّدَهُم بِرُوحٍ مِّنْهُ ۖ وَيُدْخِلُهُمْ جَنَّاتٍ تَجْرِي مِن تَحْتِهَا الْأَنْهَارُ خَالِدِينَ فِيهَا ۚ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمْ وَرَضُوا عَنْهُ ۚ أُولَٰئِكَ حِزْبُ اللَّهِ ۚ أَلَا إِنَّ حِزْبَ اللَّهِ هُمُ الْمُفْلِحُونَ
جو لوگ اللہ اور یوم آخرت پر ایمان (١٥) رکھتے ہیں، انہیں آپ ان لوگوں سے محبت کرتے ہوئے نہیں پائیں گے جو اللہ اور اس کے رسول کی مخالفت کرتے ہیں، چاہے وہ ان کے باپ ہوں، یا بیٹے ہوں، یا ان کے بھائی ہوں، یا ان کے خاوند والے ہوں، انہی لوگوں کے دلوں میں اللہ نے ایمان کو راسخ کردیا ہے، اور ان کی تائید اپنی نصرت خاص سے کی ہے، اور اللہ انہیں ایسی جنتوں میں داخل کرے گا جن کے نیچے نہریں جاری ہوں گی، ان میں وہ ہمیشہ رہیں گے، اللہ ان سے راضی ہوگیا، اور وہ اس سے راضی ہوگئے، وہی اللہ کی جماعت کے لوگ ہیں، آگاہ رہیے کہ جماعت کے لوگ ہی کامیاب ہونے والے ہیں
(15) اللہ اور اس کے رسول کے دشمنوں کا ذکر کئے جانے کے بعد، اب ان اہل ایمان کا ذکر کیا جا رہا ہے جو کسی بھی حال میں اللہ کے دشمنوں سے دوستی نہیں کرتے ہیں، اس لئے کہ ایمان باللہ اور اللہ اور اس کے رسول کے دشمنوں کی محبت ایک دل میں جمع نہیں ہو سکتی اور مقصود اس آیت کریمہ سے اللہ اور اس کے رسول کے دشمنوں کی دوستی سے ممانعت میں مبالغہ ہے، یعنی مومن کو کافروں کے ساتھ اٹھنے بیٹھنے اور ان کے ساتھ اختلاط سے بالکل اجتناب کرنا چاہئے اور اس معاملے میں مومن کے دل میں ذرا سی بھی لچک نہیں پیدا ہونی چاہئے اسی بات کو مبالغہ کی حد تک ذہن نشین کرانے کے لئے اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ چاہے وہ اللہ کے دشمن تمہارے باپ، بیٹے، بھائی یاد دیگر قریبی رشتہ دار ہی کیوں نہ ہوں، کیونکہ ایمان مومن سے تقاضا کرتا ہے کہ اللہ کے دشمنوں سے کسی طرح کا تعلق نہ رکھا جائے۔ سورۃ آل عمران آیت (28) میں اللہ تعالیٰ نے اسی بات کو یوں بیان فرمایا ہے : ” مومنوں کو چاہئے کہ ایمان والوں کو چھوڑ کر کافروں کو اپنا دوست نہ بنائیں اور جو ایسا کرے گا وہ اللہ کی حمایت میں نہیں، مگر یہ کہ ان کے شر سے کسی طرح بچاؤ مقصود ہو اور اللہ تمہیں اپنی ذات سے ڈرا رہا ہے۔ “ حافظ ابن کثیر نے سعید بن عبدالعزیز وغیرہ کے حوالے سے لکھا ہے کہ یہ آیت ابوعبیدہ بن الجراح کے بارے میں نازل ہوئی تھی جنہوں نے میدان بدر میں اپنے باپ کو قتل کردیا تھا اور ابوبکر صدیق (رض) کے بارے میں جنہوں نے اس دن اپنے بیٹے عبدالرحمٰن کو قتل کردینا چاہا تھا اور مصعب بن عمیر کے بارے میں جنہوں نے اس دن اپنے بھائی عبید بن عمیر کو قتل کردیا تھا اور عمر بن خطاب کے بارے میں جنہوں نے اس دن اپنے ایک قریبی رشتہ دار کو قتل کردیا تھا اور حمزہ علی اور عبید بن الحارث کے بارے میں نازل ہوئی تھی جنہوں نے اس دن عتبہ، شیبہ اور ولید بن عتبہ کو قتل کردیا تھا۔ اللہ تعالیٰ نے ایسے مومنوں کے بارے میں فرمایا کہ اس نے ان کے دلوں میں ایمان کو راسخ کردیا ہے اور دنیا میں انہیں اپنی نصرت خاص سے نوازا ہے، یعنی ان کے دشمنوں کو مغلوب کیا ہے۔ آیت میں ” روح“ سے بعض لوگوں نے اللہ کی خاص مدد مراد لی ہے، بعض نے نور قلب، بعض نے قرآن، بعض نے جبریل اور بعض نے ایمان مراد لیا ہے۔ مقصود یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ ایسے راسخ الایمان لوگوں کو دنیا میں ضائع نہیں ہونے دیتا اس کی نصرت و تائید ان کے ساتھ ہوتی ہے اور آخرت میں ان کا مقام جنت ہوگا جس کے نیچے نہریں جاری ہوں گی اور جس میں وہ ہمیشہ رہیں گے اور ان کا اللہ ان سے راضی ہوجائے گا ان پر اپنی رحمتوں کی بارش نازل کرے گا اور وہ مومنین اپنے رب کی گوناگوں نعمتیں پا کر اس سے خوش ہوجائیں گے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ دنیا میں یہی لوگ اللہ کی جماعت کے افراد ہیں اس کے اوامر کی اتباع کرتے ہیں، اس کے دشمنوں سے قتال کرتے ہیں اور اس کے دوستوں کی مدد کرتے ہیں اور اس میں شبہ کی کوئی گنجائش نہیں ہے کہ اللہ کی جماعت کے لوگ ہی دنیا اور آخرت میں سعادت اور کامیابی پانے والے ہیں۔ وباللہ التوفیق