يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِذَا قِيلَ لَكُمْ تَفَسَّحُوا فِي الْمَجَالِسِ فَافْسَحُوا يَفْسَحِ اللَّهُ لَكُمْ ۖ وَإِذَا قِيلَ انشُزُوا فَانشُزُوا يَرْفَعِ اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا مِنكُمْ وَالَّذِينَ أُوتُوا الْعِلْمَ دَرَجَاتٍ ۚ وَاللَّهُ بِمَا تَعْمَلُونَ خَبِيرٌ
اے ایمان والو ! جب تم سے کہا جائے کہ اپنی مجلسوں (٩) میں (دوسروں کو) جگہ دو، تو انہیں جگہ دیا کرو، اللہ تمہارے لئے کشادگی پیدا کرے گا، اور جب کہا جائے کہ اٹھ کھڑے ہو، تو اٹھ جاؤ، اللہ تم میں سے ایمان والوں اور اہل علم کے درجات بلند کرے گا، اور اللہ تمہارے اعمال سے پوری طرح باخبر ہے
(9) اس آیت کریمہ کا گزشتہ سے ارتباط واضح ہے اس لئے کہ جب لوگوں کوسرگوشی سے منع کیا گیا تو معلوم ہوا کہ انہیں محفلوں اور مجلسوں میں بیٹھنے کی اجازت تو ہے، لیکن مجالس کے کچھ آداب ہیں جن کا لحاظ ضروری ہے۔ قتادہ کہتے ہیں کہ یہ آیت نبی کریم (ﷺ) کی مجالس تعلیم کے بارے میں نازل ہوئی تھی کچھ لوگ جب کسی کو آتا دیکھتے تو اسے جگہ دینے سے کتراتے تو اللہ تعالیٰ نے انہیں نصیحت کی کہ وہ ایک دوسرے کے لئے وسعت پیدا کریں اور اس کا اجر و ثواب یہ بتایا کہ اللہ تعالیٰ ان کی جگہ، روزی اور سینوں میں کشادگی دے گا، حافظ ابن کثیر لکھتے ہیں : ایسا اس لئے ہوگا کہ جزا ہمیشہ عمل کے مشابہ ہوتا ہے، جیسا کہ عثمان بن عفان (رض) سے مروی صحیح حدیث میں آیا ہے جسے بخاری نے روایت کی ہے کہ ” جو اللہ کے لئے مسجد بنائے گا، اللہ اس کے لئے جنت میں گھر بنائے گا اور جو کسی تنگ دست کے ساتھ سہولت برتے گا، اللہ تعالیٰ دنیا و آخرت میں اس کے لئے آسانیاں پیدا کرے گا اور اللہ تعالیٰ اپنے بندے کی مدد کرتا رہتا ہے جب تک وہ اپنے بھائی کی مدد کرتا رہتا ہے“ اس قسم کی آیتیں اور حدیثیں بہت ہیں۔ آیت کے دوسرے حصہ میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ مومنو ! جب تمہیں کہا جائے کہ مجالس میں کشادگی پیدا کرنے کے لئے اپنی جگہ سے اٹھ جاؤ، یا نبی کریم (ﷺ) کی مجالس سے تمہیں اٹھ جانے کے لئے کہا جائے تاکہ تم اپنی طویل بیٹھک سے انہیں پریشان نہ کرو تو تمہیں فوراً بات مان لینی چاہئے اور اس کا اجر و ثواب اللہ نے یہ بتایا کہ جو لوگ اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لائیں گے یعنی ان کی اطاعت کریں گے اور اللہ کے احکام کا علم حاصل کر کے ان کے مطابق عمل کریں گے اللہ دنیا اور آخرت دونوں جگہ ان کے درجات بلند کرے گا۔ شوکانی نے آیت کا معنی یہ بیان کیا ہے کہ اللہ مومنوں کو غیر مومنوں پر اور اہل علم کو غیر اہل علم پر کئی گنا فوقیت دیتا ہے۔ تو جو شخص ایمان اور علم دونوں سے بہرہ ور ہوگا، اسے اللہ تعالیٰ ایمان کی وجہ سے کئی درجات دے گا اور پھر علم کی وجہ سے کئی درجات عطا کرے گا۔ (فائدہ) آیت میں حکم دیا گیا ہے کہ لوگ مجلسوں میں دیگر آنے والوں کے لئے وسعت پیدا کریں اس سے یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ کسی کو اس کی جگہ سے اٹھانا نہیں چاہئے امام احمد اور بخاری و مسلم نے ابن عمر (رض) سے روایت کی ہے کہ رسول اللہ (ﷺ) نے فرمایا :” کوئی آدمی کسی کو اس کی جگہ سے اٹھا کر خود وہاں نہ بیٹھے، بلکہ تم لوگ دوسروں کے لئے کشادگی پیدا کرو۔ “ حافظ ابن کثیر نے اس بارے میں فقہاء کا اختلاف نقل کیا ہے بعض کا خیال ہے کہ یہ جائز ہے اور بخاری کی ابو سعید خدری (رض) سے مروی حدیث سے استدلال کیا ہے، جس میں نبی کریم (ﷺ) نے سعد بن معاذ (رض) کے لئے صحابہ کرام کو اٹھنے کا حکم دیا تھا اور کہا تھا کہ ” تم لوگ اپنے سردار کے لئے اٹھ کھڑے ہو“ اور بعض نے کہا کہ ایسا کرناجائز ہے، اگر کوئی سفر سے آیا ہو، یا حاکم جب اپنی مجلس میں آئے، جیسا کہ رسول اللہ (ﷺ) نے سعد بن معاذ (رض) کے لئے صحابہ کرام کو حکم دیا تھا کہ وہ اٹھ کر ان کا استقبال کریں، لیکن اگر کوئی شخص اپنی یہ عادت بنا لیتا ہے تو جائز نہیں ہے اس لئے کہ نبی کریم (ﷺ) نے فرمایا ہے جو شخص یہ پسند کرتا ہے کہ لوگ اس کے لئے اٹھ جایا کریں وہ اپنا ٹھکانا جہنم میں بنا لے اس حدیث کو ابو داؤد نے معاویہ (رض) سے روایت کی ہے۔