ثُمَّ قَفَّيْنَا عَلَىٰ آثَارِهِم بِرُسُلِنَا وَقَفَّيْنَا بِعِيسَى ابْنِ مَرْيَمَ وَآتَيْنَاهُ الْإِنجِيلَ وَجَعَلْنَا فِي قُلُوبِ الَّذِينَ اتَّبَعُوهُ رَأْفَةً وَرَحْمَةً وَرَهْبَانِيَّةً ابْتَدَعُوهَا مَا كَتَبْنَاهَا عَلَيْهِمْ إِلَّا ابْتِغَاءَ رِضْوَانِ اللَّهِ فَمَا رَعَوْهَا حَقَّ رِعَايَتِهَا ۖ فَآتَيْنَا الَّذِينَ آمَنُوا مِنْهُمْ أَجْرَهُمْ ۖ وَكَثِيرٌ مِّنْهُمْ فَاسِقُونَ
پھر ہم نے ان کے پیچھے اپنے دوسرے رسول (٢٥) بھیجے، اور ان سب کے پیچھے عیسیٰ بن مریم کو بھیجا، اور ہم نے انہیں انجیل دیا، اور جن لوگوں نے ان کی پیروی کی ان کے دلوں میں نرمی اور رحمت ڈال دی۔ اور جس ” رہبانیت“ کی بدعوت انہوں نے پیدا کی، اسے ہم نے ان پر فرض نہیں کیا تھا، مگر انہوں نے اللہ کی رضا کی چاہت میں ایسا کیا تھا، پھر انہوں نے کما حقہ اسے نہیں نباہا، پس ان میں سے جو لوگ ایمان پر قائم رہے، ہم نے انہیں ان کا نیک اجر دیا، اور ان میں سے بہت سارے فاسق ہوگئے
(25) اللہ تعالیٰ نے انبیاء و رسل کا یہ تسلسل قائم رکھا، موسیٰ، الیاس، داؤد، سلیمان اور دیگر انبیاء آتے رہے، یہاں تک کہ عیسیٰ بن مریم کو اللہ تعالیٰ نے اپنا رسول بنا کر بھیجا، جو ابراہیم (علیہ السلام) کی ذریت سے تھے، اس لئے کہ ان کی ماں مریم علیہا السلام آل ابراہیم سے تھیں۔ اللہ تعالیٰ نے عیسیٰ (علیہ السلام) کو انجیل عطا کی تھی تاکہ وہ اس کے مطابق لوگوں کی رہنمائی کریں اور اس نے ان کے حواریوں یعنی اولین پیروکاروں کے دلوں میں ایک دوسرے کے لئے اور اپنی عام مخلوق کے لئے نرمی اور محبت ڈال دی تھی، اس لئے کہ عیسیٰ (علیہ السلام) جب تک زندہ رہے، انہیں نصیحت کرتے رہے کہ وہ یہودیوں کی طرح نہ بنیں جن کے دل اللہ تعالیٰ نے سخت بنا دیئے تھے بلکہ اللہ کی مخلوق کے ساتھ شفقت و محبت اور حلم و برد باری کا برتاؤ کریں ان تعلیمات کا اثر یہ ہوا کہ ان کے دل نرمی اور محبت کے خوگر ہوگئے اور قساوت قلبی سے نفرت کرنے لگے۔ اللہ تعالیٰ نے سورۃ المائدہ آیت (82) میں ان کی اسی نرمی کے بارے میں فرمایا ہے : ” یقیناً آپ ایمان والوں کا سب سے زیادہ دشمن یہودیوں اور مشرکوں کو پائیں گے اور ایمان والوں سے سب سے زیادہ دوستی کے قریب آپ یقیناً انہیں پائیں گے جو اپنے آپ کو نصاریٰ کہتے ہیں، یہ اس لئے کہ ان میں علماء اور عبادت کے لئے گوشہ نشین افراد پائے جاتے ہیں اور اس وجہ سے کہ وہ تکبر نہیں کرتے ہیں۔ “ الآیۃ متبعین عیسیٰ (علیہ السلام) مذکور بالا خوبیوں کے ساتھ، ایک خرابی میں مبتلا ہوگئے، انہوں نے اللہ تعالیٰ کی عبادت کی غرض سے دین عیسوی میں ایک بدعت ایجاد کرلی جسے قرآن کریم نے ” رہبانیت“ کا نام دیا ہے، اور جس کا مفہوم یہ ہے کہ آدمی اللہ کی رضا کے حصول کے لئے دنیا و مافیہا سے کنارہ کشی اختیار کرلے اور گوشہ عزلت میں بیٹھ کر اللہ کی یاد میں مشغول ہوجائے، لیکن عملی طور پر وہ لوگ کما حقہ اس کی پابندی نہ کرسکے، بلکہ مرور زمانہ کے ساتھ دین عیسیٰ سے دور ہوتے گئے اور دنیا دار بادشاہوں کی مرضی کے مطابق، اللہ کی کتاب (انجیل) کو بدل ڈالا اور اس رہبانیت کو چھوڑ دیا جسے انہوں نے از خود ایجاد کیا تھا، صرف کچھ ہی لوگ صحیح دین پر باقی رہے، جن کا ذکر قرآن کریم نے آیت کے آخری حصہ میں کیا ہے اور کہا ہے کہ فَآتَيْنَا الَّذِينَ آمَنُوا مِنْهُمْ أَجْرَهُمْĬ جو لوگ شرک بدعت سے بچے رہے اور عیسیٰ (علیہ السلام) کے صحیح دین پر قائم رہے اور نبی کریم (ﷺ) کی بعثت کے بعد ان پر ایمان لائے، اللہ تعالیٰ نے انہیں اجر عظیم سے نوازا۔