وَاللَّاتِي يَأْتِينَ الْفَاحِشَةَ مِن نِّسَائِكُمْ فَاسْتَشْهِدُوا عَلَيْهِنَّ أَرْبَعَةً مِّنكُمْ ۖ فَإِن شَهِدُوا فَأَمْسِكُوهُنَّ فِي الْبُيُوتِ حَتَّىٰ يَتَوَفَّاهُنَّ الْمَوْتُ أَوْ يَجْعَلَ اللَّهُ لَهُنَّ سَبِيلًا
اور تمہاری عورتوں میں سے جو زنا (22) کا ارتکاب کریں، تو ان پر چار مرد گواہ لاؤ، اگر وہ گواہی دیں تو انہیں گھروں میں بند کردو، یہاں تک کہ ان کی موت آجائے، یا اللہ ان کے لیے کوئی اور سبیل نکال دے
22۔ وراثت کے احکام بیان کرنے کے بعد یہاں اللہ تعالیٰ نے عورتوں سے متعلق بعض دوسرے احکام بیان کیے ہیں۔ سدی، قتادہ اور ابن جریر وغیرہم نے کہا ہے کہ ابتدائے اسلام میں ایسی شادی شدہ عورت کے بارے میں جس سے زنا کا ارتکاب ہوجاتا اور چار مرد گواہوں کی گواہی سے ثابت ہوجاتا، تو حکم یہ تھا کہ اسے گھر میں بند کردیا جاتا اور نکلنے نہ دیا جاتا یہاں تک کہ اس کی موت آجاتی، اور علماء تفسیر نے لکھا ہے کہ زانی مردوں کے ساتھ بھی یہی برتاؤ ہوتا تھا، اس کے بعد غیر شادی شدہ کو کوڑے لگانے اور شادی شدہ کو رجم کیے جانے کے حکم کے ذریعہ یہ حکم منسوخ ہوگیا، جیسا کہ امام احمد، مسلم اور اصحابِ سنن نے عبادہ بن صامت (رض) سے روایت کی ہے کہ نبی کریم ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) پر جب وحی اترتی تو آپ پر اس کا اثر ہوتا تھا، آپ مارے دباؤ کے تھک جاتے اور آپ کے چہرہ پر اس کے آثار ظاہر ہوتے، ایک دن آپ پر وحی نازل ہوئی، اور جب آپ کو سکون ہوگیا تو فرمایا، مجھ سے یہ حکم لے لو، زانیہ عورتوں کے لیے اللہ نے راستہ نکال دیا ہے، اگر زنا کا مرتکب مرد یا عورت شادی شدہ ہے تو سو کوڑے اور رجم کرنا ہے، اور اگر غیر شادی شدہ ہے تو سو کوڑے اور ایک سال کے لیے شہر بدر کرنا ہے۔ امام احمد کا قول اسی حدیث کے مطابق ہے۔ لیکن جمہور کے نزدیک شادی شدہ زانی کو صرف رجم کیا جائے گا، اس لیے کہ نبی کریم ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) نے ماعز اسلمی، غامدیہ عورت، اور دو یہودیوں کو صرف رجم کیا تھا، انہیں کوڑے نہیں لگائے تھے۔