وَآمِنُوا بِمَا أَنزَلْتُ مُصَدِّقًا لِّمَا مَعَكُمْ وَلَا تَكُونُوا أَوَّلَ كَافِرٍ بِهِ ۖ وَلَا تَشْتَرُوا بِآيَاتِي ثَمَنًا قَلِيلًا وَإِيَّايَ فَاتَّقُونِ
اور اس کتاب پر ایمان لاؤ (٩١) جو میں نے اتاری ہے اس کتاب کو سچ (٩٢) بتانے کے لیے جو تمہارے پاس ہے، اور اس کے سب سے پہلے منکر (٩٣) نہ بنو، اور میری آیتوں کے بدلے میں تھوڑی قیمت (٩٤) نہ لو، اور مجھ سے ڈرو
91: ابن جریر نے اس کی تفسیر یوں کی ہے اے بنی اسرائیل کے وہ لوگو جنہوں نے مجھ سے کیے گئے عہد و پیمان کو ضائع کردیا، اور جنہوں نے میرے رسول ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کو جھٹلا دیا جن پر ایمان لانے کا عہد میں ان تمام کتابوں میں لیا تھا جو انبیائے بنی اسرائیل پر اتاری گئیں، مجھ سے ڈرو اور دیکھو آگاہ رہو کہ اگر تم لوگوں نے میرے رسول کی اتباع نہ کی اور قرآن کریم پر ایمان نہ لائے تو کہیں تمہیں بھی وہ عذاب نہ لاحق ہوجائے جو تمہارے ان اجداد کو لاحق ہوا جنہوں نے میرے حکم کی خلاف ورزی کی، اور میرے رسولوں کی تکذیب کی۔ 92: ابن جریر کہتے ہیں کہ اللہ نے انہیں قرآن کی تصدیق کا حکم دیا، اور بتایا کہ قرآن کی تصدیق در اصل تورات کی تصدیق ہے۔ اس لیے کہ اگر انہیں قرآن میں نبی کریم ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کی نبوت کی تصدیق اور ان کی اتباع کا حکم دیا گیا ہے، تو یہی بات انجیل و تورات میں بھی موجودہے، اس لیے اگر وہ محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) پر اتاری گئی کتاب کی تصدیق کرتے ہیں، تو گویا تورات کی تصدیق کرتے ہیں، اور اگر اس کی تکذیب کرتے ہیں تو گویا تورات کی تکذیب کرتے ہیں۔ 93: یعنی اہل کتاب میں قرآن کریم کا سب سے اولین انکار کرنے والے نہ بنو، ورنہ کفار مکہ تو قرآن کا پہلے انکار کرچکے تھے، مدینہ منورہ کے یہودی بنی اسرائیل میں پہلے لوگ تھے، جن کو اللہ نے قرآن پر ایمان لانے کی دعوت دی، اور حق تو یہ تھا کہ وہ سب سے پہلے ایمان لاتے، کیونکہ وہ رسول اللہ ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کی صفات کو پہلے سے تورات کے ذریعہ جانتے تھے، لیکن انہوں نے کفر کی راہ اختیار کی اور قرآن اور رسول اللہ ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کے پہلے منکر بن گئے۔ 94: یعنی دنیا اور اس کی خواہشات کی خاطر (جو بہت ہی قلیل اور فانی ہیں) قرآن کریم اور نبی کریم ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کا انکار مت کرو، اور مجھ سے ڈرتے رہو، یعنی ایمان لے آؤ، حق کی اتباع کرو اور دنیا کی عارضی نعمتوں کے دھوکے میں نہ پڑو۔