الَّذِينَ يَذْكُرُونَ اللَّهَ قِيَامًا وَقُعُودًا وَعَلَىٰ جُنُوبِهِمْ وَيَتَفَكَّرُونَ فِي خَلْقِ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ رَبَّنَا مَا خَلَقْتَ هَٰذَا بَاطِلًا سُبْحَانَكَ فَقِنَا عَذَابَ النَّارِ
جو کھڑے اور بیٹھے اور اپنے پہلو کے بل لیٹے ہوئے اللہ کو یاد (128) کرتے ہی، اور آسمانوں اور زمین کی تخلیق میں غور و فکر کرتے ہیں (اور کہتے ہیں کہ) اے ہمارے رب ! تو نے انہیں بے کار نہیں پیدا کیا ہے، تو ہر عیب سے پاک ہے، پس تو ہمیں عذاب نار سے بچا۔
128۔ وہ لوگ اٹھتے، بیٹھتے اور لیٹتے ہر حال میں اللہ کو یاد کرتے ہیں، اور کبھی بھی اس کی یاد سے غافل نہیں ہوتے، اور آسمانوں اور زمین کی تخلیق کے بارے میں غور و فکر کر کے اس یقین تک پہنچ جاتے ہیں کہ ان سب کا کوئی خالق ضرور ہے جو قادر، مطلق اور مدبر اور حکیم ہے۔ ابن ابی الدنیا نے کتاب التوکل والاعتبار میں ابو سلیمان دارانی کا قول نقل کیا ہے کہ میں جب اپنے گھر سے نکلتا ہوں اور میری نظر کسی چیز پر پڑتی ہے، تو اسے اپنے لیے اللہ کی نعمت اور اس میں ایک عبرت پاتا ہوں۔ اللہ تعالیٰ نے مخلوقات میں غور کرنے کی دعوت دی ہے، گویا خالق کے بارے میں غور کرنے سے منع فرمایا ہے، اس لیے کہ اللہ کی ذات و صفات کی کنہیات کو کوئی نہیں سمجھ سکتا۔ جب عقل والے اس حقیقت کو پالیتے ہیں کہ ہمارا اور ساری کائنات کا کوئی رب ضرور ہے، تو انتہائے خشوع و خضوع اور بے پایاں تعظیم کے ساتھ پکار اٹھتے ہیں کہ اے ہمارے رب ! تو نے انہیں بے کار نہیں پیدا کیا ہے، تو تمام عیوب سے پاک ہے، تو ہمیں عذاب نار سے بچا دے