لَا تَحْسَبَنَّ الَّذِينَ يَفْرَحُونَ بِمَا أَتَوا وَّيُحِبُّونَ أَن يُحْمَدُوا بِمَا لَمْ يَفْعَلُوا فَلَا تَحْسَبَنَّهُم بِمَفَازَةٍ مِّنَ الْعَذَابِ ۖ وَلَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ
جو لوگ اپنے کیے پر خوش (126) ہو رہے ہیں، اور چاہتے ہیں کہ ناکردہ اعمال پر بھی ان کی تعریف کی جائے، انہیں آپ عذاب سے محفوظ نہ سمجھیں، اور ان کے لیے دردناک عذاب ہوگا
126 ل۔ اس آیت کریمہ میں ایسے تمام لوگوں کی مذمت کی گئی ہے جو ریاکاری اور نام و نمود کی خاطر کام کرتے ہیں، اور جتنا کرتے نہیں اس سے زیادہ کا اظہار کرتے ہیں، یا جو خوبی ان کے اندر نہیں ہوتی اسے اپنی طرف منسوب کرتے ہیں امام احمد اور امام مسلم کی روایت ہے، رسول اللہ ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) نے فرمایا کہ جس نے اپنے بارے میں کوئی جھوٹا دعوی کیا تاکہ لوگوں کے سامنے بڑا بنے، تو اللہ تعالیٰ اس کا وقار گھٹا دیتا ہے، ایک دوسری حدیث ہے جو صحیحین میں مروی ہے کہ جو شخص کسی ایسی خوبی کا دعوی کرے جو اللہ نے اسے نہیں دیا ہے، وہ جھوٹ اور فریب کے دو کپڑے پہننے والے کی مانند ہے۔ علمائے تفسیر نے اس آیت کا شان نزول بیان کرنے کے لیے بخاری اور مسلم کی یہ روایت نقل کی ہے، کہ مروان نے اپنے دربان رافع سے کہا کہ ابن عباس کے پاس جاؤ اور پوچھو کہ اس آیت کے بموجب ہر وہ آدمی جو اپنے پاس موجود شے پر خوش ہوتا ہے، اور پسند کرتا ہے کہ جو اس نے نہیں کیا ہے اس پر اس کی تعریف ہو، عذاب دیا جائے گا، تو کیا ہم سب کو عذاب ہوگا؟ ابن عباس (رض) نے سن کر کہا کہ یہ آیت اہل کتاب کے بارے میں نازل ہوئی تھی۔ پھر انہوں نے والی آیت پڑھی، اور کہا کہ رسول اللہ ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) نے یہود مدینہ سے تورات کی کوئی بات پوچھی، تو انہوں نے اسے چھپا دیا اور بدل کر دوسری بات بتا دی، اور جب وہاں سے چلے تو خوش ہو کر چلے کہ انہوں نے رسول اللہ ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) کو جواب بھی دے دیا اور صحیح بات چھپا بھی دی، تو یہ آیت نازل ہوئی۔ بخاری اور مسلم نے ابو سعید الخدری (رض) سے روایت کی ہے کہ جب رسول اللہ ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) غزوہ میں جاتے تو منافقین پیچھے رہ جاتے، اور اپنی اس چالاکی پر خوش ہوتے، اور جب رسول اللہ کی واپسی کے بعد ان کے پاس جاتے تو حلفیہ عذر پیش کرتے، اور چاہتے کہ انہوں نے جو خیر کا کام نہیں کیا ہے اس پر ان کی تعریف ہو، تو یہ آیت نازل ہوئی۔ بعض نے کہا ہے کہ یہ آیت فنحاص اور اشیع علمائے یہود کے بارے میں نازل ہوئی ہے۔ بہت ممکن ہے کہ ان سبھی واقعات کے پیش نظر یہ آیت نازل ہوئی ہو، کیونکہ آیت کا مضمون سب پر منطبق ہوتا ہے۔ اس کے بعد اللہ نے نبی کریم ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) سے کہا کہ آپ یہ نہ سمجھیں کہ وہ عذاب سے بچ جائیں گے، بلکہ ایک دردناک عذاب ان کا انتظار کر رہا ہے