لَتُبْلَوُنَّ فِي أَمْوَالِكُمْ وَأَنفُسِكُمْ وَلَتَسْمَعُنَّ مِنَ الَّذِينَ أُوتُوا الْكِتَابَ مِن قَبْلِكُمْ وَمِنَ الَّذِينَ أَشْرَكُوا أَذًى كَثِيرًا ۚ وَإِن تَصْبِرُوا وَتَتَّقُوا فَإِنَّ ذَٰلِكَ مِنْ عَزْمِ الْأُمُورِ
تمہیں یقینا تمہارے مالوں اور جانوں میں آزمایا (124) جائے گا اور تم یقیناً ان لوگوں کی جانب سے جنہیں تم سے پہلے کتاب دی گئی، اور مشرکین کی جانب سے بہت سی تکلیف دہ باتیں سنو گے اور اگر تم صبر کرو گے اور اللہ سے ڈرتے رہو گے تو بے شک یہ ہمت و عزیمت کا کام ہے
124۔ اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو صبر و ثبات قدمی کی تعلیم دی ہے جو ایمان کا تقاضا ہے مؤمن اپنی زندگی میں اللہ کی جانب سے آزمایا جاتا ہے، کبھی اس کے مال و جائداد پر کوئی آفت آتی ہے تو کبھی اس کی جان کے لالے پڑجاتے ہیں، قتل و بند اور زخم و مصیبت، اور دیگر قسم کے شدائد سے دوچار ہوتا ہے، اور اس کا ایمان اس سے تقاضا کرتا ہے کہ اللہ کے لیے اور جنت کی خاطر بخوشی کڑوے گھونٹ پیتا رہے، اور زبان پر کلمہ شکایت نہ لائے۔ سورۃ بقرہ کی آیات 155 تا 156 میں یہی مضمون گذر چکا ہے۔ ترمذی نے کتاب الزہد میں مصعب بن سعد سے اور انہوں نے اپنے والد سعد سے روایت کی ہے کہ میں نے کہا، یا رسول اللہ ! سب سے زیادہ کس کی آزمائش ہوتی ہے؟ تو آپ نے فرمایا ” انبیاء کی، ان کے بعد بتدریج سب سے اچھے مسلمانوں کی، آدمی کی آزمائش اس کے دین و ایمان کے درجہ کے مطابق ہوتی ہے، دین میں جو جتنا سخت ہوتا ہے، اس کی آزمائش بھی سخت ہوتی ہے اور جو دین میں ڈھیلا ہوتا ہے، اس کی آزمائش اسی حساب سے ہوتی ہے، بندہ کی آزمائش ہوتی رہتی ہے، یہاں تک کہ اس کے سارے گناہ مٹ جاتے ہیں“ اس کے بعد اللہ نے فرمایا کہ تم لوگ اہل کتاب اور مشرکین سے بہت سی ایذا رسانی کی باتیں سنو گے، لیکن تمہیں دل گرفتہ نہیں ہونا ہے بلکہ صبر سے کام لینا ہے اور اللہ سے ڈرتے رہنا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے مؤمنوں کو یہ بات جنگ بدر سے پہلے کہی تھی کہ ابھی وہ صبر سے کام لیں، ابھی یہود اور منافقین کو چھیڑنے کا موقع نہیں آیا ہے اس سلسلہ میں امام بخاری نے اسامہ بن زید (رض) کی ایک روایت بھی نقل کی ہے، جس کا خلاصہ یہ ہے کہ رسول اللہ ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) ایک دن ایک گدھے پر سوار ہو کر یہود و مشرکین اور مسلمانوں کی ایک مشترکہ مجلس کے پاس سے گذرے۔ عبداللہ بن ابی نے اپنی ناک پر چادر ڈال کر کہا کہ تم لوگ ہماری مجلسوں میں غبار نہ اڑاؤ، جب آپ نے اس کے سامنے قرآن کی تلاوت کی اور دعوت اسلام دیا، تو کہنے لگا کہ تم لوگ ہماری مجلسوں کی فضا مکدر نہ کرو، تمہارے پاس جو جائے اسے ہی اپنی باتیں سنایا کرو، عبداللہ بن رواحہ (رض) بھی مجلس میں موجود تھے، انہوں نے کہا، یا رسول اللہ ! آپ ہمیں اپنی بات ضرور سنائیں، اس کے بعد مسلمانوں اور یہود و مشرکین نے ایک دوسرے کو برا بھلا کہنا شروع کردیا، اللہ کے رسول نے سب کو خاموش کرایا، جب آپ سعد بن عبادہ (رض) کے پاس آئے جن کی عیادت کے لیے آپ نکلے تھے، تو ان سے ساری باتیں بتائی، انہوں نے کہا، یا رسول اللہ ! آپ اس (عبداللہ بن ابی) کو معاف کردیجئے۔ اسے لوگوں نے اپنا بادشاہ بنانا چاہا تھا کہ اللہ نے اپنا دین بھیج دیا، جو اس کے حلق کا کانٹا بن گیا یہ سن کر رسول اللہ ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) نے اسے معاف کردیا۔ اس زمانے میں دوسرے یہود و منافقین کے ساتھ بھی آپ کا یہی رویہ رہا۔ جب میدانِ بدر میں سردارانِ قریش مارے گئے، تو عبداللہ بن ابی نے اپنے ساتھیوں سے کہا کہ اب تو یہ دین غالب ہو رہا ہے، اس لیے آؤ محمد کے ہاتھ پر اسلام کا اعلان کردیں۔ معلوم ہوا کہ جو کوئی اسلام کی دعوت دے گا، خیر کی طرف بلائے گا، اور شر سے روکے گا اسے اذیتیں برداشت کرنی پڑیں گی۔