يَوْمَ نَقُولُ لِجَهَنَّمَ هَلِ امْتَلَأْتِ وَتَقُولُ هَلْ مِن مَّزِيدٍ
جس دن ہم جہنم سے کہیں گے، کیا تو بھر گئی (٢٢) اور وہ کہے گی : کیا اور جہنمی ہیں
(22) واحدی نے مفسرین کے حوالے سے لکھا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ابلیس سے جو بات کہی تھی کہ میں جنوں اور انسانوں کے ذریعہ جہنم کو بھردوں گا اس کے مطابق جب جہنم بھر جائے گی تو اللہ تعالیٰ اس سے پوچھے گا کہ کیا تم بھر گئی؟ تو جہنم کہے گی کہ ہاں میں بالکل بھر گئی اور اب کوئی جگہ خالی نہیں ہے، عطاء مجاہد اور مقاتل بن سلیمان نے یہی تفسیر بیان کی ہے۔ امام بخاری اور حافظ ابن کثیر وغیرہ ہم نے یہ تفسیر بیان کی ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے وعدہ کے مطابق جہنم میں جنوں اور انسانوں کو ڈالتا جائے گا اور جہنم مزید جہنمیوں کا مطالبہ کرتی رہے گی، یہاں تک کہ رب العزۃ اس میں اپنا قدم ڈال دے گا، تو وہ سکڑ جائے گی اور کہنے لگے گی کہ بس بس، تیری عزت و بخشش کی قسم، بخاری اور مسلم نے اس آیت کی تفسیر کے ضمن میں انس (رض) کی حدیث روایت کی ہے، جسکا مفہوم وہی ہے جو اوپر بیان کیا گیا ہے۔