بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَٰنِ الرَّحِيمِ
میں شروع کرتا ہوں اللہ کے نام سے جو نہایت مہربان، بے حد رحم کرنے والا ہے
سورۃ ق ٓ مکی ہے، اس میں پینتالیس آیتیں اور تین رکوع ہیں تفسیر سورۃ ق نام : پہلی آیت کی ابتدا میں موجود حرف مقطع ” ق“ اس کا نام رکھ دیا گیا ہے اسے سورۃ ” الباسقات“ بھی کہا جاتا ہے۔ زمانہ نزول : تمام کے نزدیک اس کا زمانہ نزول مکی دور ہے۔ ابن عباس اور قتادہ سے مروی ایک روایت کے مطابق صرف ایک آیت مدنی ہے۔ حافظ ابن کثیر اور امام شوکانی کے نزدیک صحیح یہی ہے کہ مفصل صورتوں کی ابتدا اسی سورت سے ہوتی ہے۔ مالکیہ کے نزدیک ان کی ابتدا سورۃ الحجرات سے ہوتی ہے، جس کی تفسیرابھی گذری ہے۔ سورۃ ” ق“ سے لے کر سورۃ ” الناس“ تک قرآن کریم کی سورتوں کو تین حصوں میں بانٹ دیا گیا ہے۔ سورۃ ” ق“ سے ” النازعات“ تک کی سورتوں کو ” طوال مفصل“ سورۃ ” عبس“ سے لے کر ” اللیل“ تک کو ” وسط مفصل“ اور ” الضحیٰ“ سے ” الناس“ تک ” قصار مفصل“ کہا جاتا ہے، فجر کی نماز میں طوال مفصل سے، ظہر اور عشاء میں وسط مفصل سے اور مغرب میں قصار مفصل سے پڑھنا مستحب ہے۔ امام احمد، مسلم اور اصحاب سنن نے روایت کی ہے عمر بن خطاب (رض) نے ابو واقد لیثی سے پوچھا کہ رسول اللہ (ﷺ) عید کی نماز میں کیا پڑھتے تھے؟ تو انہوں نے کہا : ق اور اقتربت اور مسلم، ابوداؤد اور نسائی و غیر ہم نے ام ہشام بنت حارثہ بن النعمان سے روایت کی ہے کہ میں نے سورۃ ق رسول اللہ (ﷺ) سے سن کر یاد کیا تھا، آپ (ﷺ) ہر جمعہ اسے پڑھ کر خطبہ دیتے تھے ایک روایت میں ہے : آپ (ﷺ) ہر جمعہ کے دن جب لوگوں کے سامنے خطبہ دیتے تھے تو اسے منبر پر پڑھتے تھے۔ مقصد یہ ہے کہ رسول اللہ (ﷺ) سورۃ ق عید اور جمعہ جیسے مجمعوں میں پڑھا کرتے تھے، اس لئے کہ اس میں انسان کی پیدائش، بعث بعد الموت، قیامت، حساب و کتاب، جنت و جہنم، ثواب و عقاب اور ترغیب وترہیب کا ذکر آیا ہے، جنہیں سننے سے آدمی کے اندر فکر آخرت پیدا ہوتی ہے۔