يَا أَيُّهَا النَّاسُ إِنَّا خَلَقْنَاكُم مِّن ذَكَرٍ وَأُنثَىٰ وَجَعَلْنَاكُمْ شُعُوبًا وَقَبَائِلَ لِتَعَارَفُوا ۚ إِنَّ أَكْرَمَكُمْ عِندَ اللَّهِ أَتْقَاكُمْ ۚ إِنَّ اللَّهَ عَلِيمٌ خَبِيرٌ
لوگو ! ہم نے تمہیں مرد اور عورت کے ملاپ سے پیدا (١١) کیا ہے، اور ہم نے تمہیں قوموں اور قبیلوں میں اس لئے بانٹ دیا ہے تاکہ تم ایک دوسرے کو پہچانو، بے شک اللہ کے نزدیک تم میں سب سے معزز وہ ہیں جو سب سے زیادہ پرہیز گار ہیں، بے شک اللہ بڑا جاننے والا، ہر چیز کی خبر رکھنے والا ہے
(11) اس آیت کریمہ میں اللہ تعالیٰ نے انسانوں کو خبر دی ہے کہ وہ سب آدم و حوا کی اولاد ہیں، اس لئے نسب کے اعتبار سے سب برابر ہیں، اب ان میں جو جتنا زیادہ اللہ اور اس کے رسول کا مطیع و فرمانبردار ہوگا، اتنا ہی اس کا مقام اللہ کے نزدیک اونچا ہوگا ، اور اللہ تعالیٰ نے انسانوں کو قوموں اور قبائل میں اسے لئے نہیں بانٹا ہے کہ وہ ایک دوسرے کے مقابلے میں جھوٹا فخر کریں، جس کی کوئی حقیقت نہیں ہے، اس کا مقصد محض یہ ہے کہ وہ بہائم کی طرح زندگی نہ گذاریں کہ کوئی کسی کو نہیں پہچانتا، بلکہ ان کے آپس میں جان پہچان اور تعارف ہونا چاہئے، اسی لئے اللہ تعالیٰ نے انہیں قوموں، قبیلوں اور خاندانوں میں بانٹ دیا ہے، تاکہ ان کے درمیان باہمی تعاون کا جذبہ پیدا ہو اور ایک صالح سوسائٹی وجود میں آئے۔ علمائے تفسیر نے لکھا ہے کہ یہ آیت اس بات کی دلیل ہے کہ انساب کی حفاظت کا اہتمام امر مطلوب ہے، کیونکہ اسی کے ذریعہ آپ اس میں تعارف ہوتا ہے، صلہ رحمی کا جذبہ پیدا ہوتا ہے، آپس میں وراثت کی تقسیم ہوتی ہے اور رشتہ داریاں قائم ہوتی ہیں، لیکن نسب کی بنیاد پر فخر کرنا مذموم ہے اور متقی آدمی اگرچہ خاندانی اعتبار سے پست ہوگا، غیر متقی خاندانی آدمی پر مقدم ہوگا۔ ابن ابی حاتم نے ابن وہب سے روایت کی ہے کہ میں نے امام مالک سے پوچھا کہ کسی عربی عورت سے غلام کی شادی کے بارے میں ان کا کیا خیال ہے؟ تو انہوں نے کہا : حلال ہے، پھر یہی آیت پڑھی، یعنی کفو ہونے کے لئے آزادی کی شرط نہیں لگائی۔ حافظ ابن کثیر کہتے ہیں کہ جن لوگوں نے نکاح میں کفو ہونے کی شرط نہیں لگائی ہے، انہوں نے اسی آیت سے استدلال کیا ہے، اور کہا ہے کہ سوائے دین کے کوئی شرط نہیں ہے۔ آیت میں مذکور معنی و مفہوم کو نبی کریم (ﷺ) نے بہت سی احادیث میں بیان فرمایا ہے، امام بخارمی نے ابوہریرہ (رض) سے روایت کی ہے آپ (ﷺ) سے پوچھا گیا کہ کون شخص زیادہ باعزت ہے؟ تو آپ نے فرمایا :” اللہ کے نزدیک لوگوں میں سب سے باعزت وہ ہے جو اللہ سے زیادہ ڈرنے والا ہے“ امام مسلم نے ابوہریرہ (رض) سے روایت کی ہے کہ رسول اللہ (ﷺ) نے فرمایا ،” اللہ تعالیٰ تمہاری صورتوں اور تمہارے مال کو نہیں دیکھتا، بلکہ وہ تمہارے دلوں اور اعمال کو دیکھتا ہے۔ “