الَّذِينَ اسْتَجَابُوا لِلَّهِ وَالرَّسُولِ مِن بَعْدِ مَا أَصَابَهُمُ الْقَرْحُ ۚ لِلَّذِينَ أَحْسَنُوا مِنْهُمْ وَاتَّقَوْا أَجْرٌ عَظِيمٌ
جن لوگوں نے کاری زخم (116) لگنے کے بعد بھی اللہ اور اس کے رسول کی بات مانی، ان میں سے جن لوگوں نے اچھے کام کیے اور تقوی کی راہ اختیار کی، ان کے لیے اجر عظیم ہے
116۔ اس آیت کریمہ میں ان زخمی صحابہ کرام کی طرف اشارہ ہے، جنہوں نے جنگ احد کے بعد ابو سفیان اور اس کی فوج کا پیچھا کیا تھا۔ اس کا پس منظر یہ ہے کہ ابوسفیان اور مشرکین مکہ جنگ احد کے بعد جب واپس ہونے لگے، تو کچھ دور جانے کے بعد انہیں خیال آیا کہ کیوں نہ مدینہ واپس جا کر مسلمانوں کا صفایا کردیا جائے۔ نبی کریم ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) کو جب اس کی اطلاع ہوئی، تو انہیں ڈرانے اور یہ احساس دلانے کے لیے کہ مسلمان ابھی قوی ہیں اور کافروں کا صفایا کرسکتے ہیں، انہی صحابہ کرام کو جنہوں نے جنگ احد میں شرکت کی تھی، اپنے ساتھ کافروں کا پیچھا کرنے کا حکم دیا، جابر بن عبداللہ واحد صحابی تھے جنہوں نے جنگ احد میں اپنی بہنوں کی دیکھ بھال کے لیے اپنے باپ کے حکم سے شرکت نہیں کی تھی، تاکہ ان کے باپ جنگ میں شریک ہوسکیں۔ انہیں اللہ کے رسول نے اجازت دے دی کہ وہ ابوسفیان کا پیچھا کرنے میں شریک ہوسکتے ہیں۔ صحابہ کرام نے اپنے نبی کے حکم پر لبیک کہا اور ہزار تکلیفوں اور زخموں کے باوجود ابو سفیان کی تلاش میں نکل پڑے یہاں تک کہ حمراء الاسد پہنچ گئے، جہاں معبد الخزاعی نے رسول اللہ ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) کے پاس آ کر اسلام قبول کرلیا۔ آپ ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) نے انہیں حکم دیا کہ ابوسفیان کے پاس جا کر اسے مسلمانوں سے خوف دلائیں۔ ابوسفیان کو معبد کے اسلام لانے کا علم نہیں تھا، اس نے پوچھا کہ تمہارے پاس محمد اور اس کے ساتھیوں کے بارے میں خبر ہے؟ تو انہوں نے جواب دیا کہ وہ لوگ تو کسی طرح تمہیں پا لینا چاہتے ہیں، اگر انہوں نے تمہیں آلیا تو تمہاری خیر نہیں۔ محمد کے وہ ساتھی جنہوں نے جنگ احد میں شرکت نہیں کی تھی وہ بھی ساتھ ہوگئے ہیں۔ ابو سفیان نے پوچھا کہ تمہاری کیا رائے ہے؟ تو انہوں نے کہا کہ میری رائے بس یہ ہے کہ تم لوگ جلد از جلد یہاں سے روانہ ہوجاؤ، چنانچہ وہ لوگ گھبرا کر مکہ کی طرف لوٹ گئے۔