وَلَوْ أَنَّهُمْ صَبَرُوا حَتَّىٰ تَخْرُجَ إِلَيْهِمْ لَكَانَ خَيْرًا لَّهُمْ ۚ وَاللَّهُ غَفُورٌ رَّحِيمٌ
اور اگر وہ صبر کرتے، یہاں تک کہ آپ ان کے پاس نکل کر آتے، تو ان کے لئے بہتر ہوتا، اور اللہ بڑا معاف کرنے والا، بے حد رحم کرنے والا ہے
آیت (5) میں اللہ تعالیٰ نے صحابہ کرام کو نبی کریم (ﷺ) کے ساتھ نہایت با ادب رہنے کی تعلیم دینے کے لیے فرمایا کہ اگر وہ لوگ صبر کرتے اور ادب کے ساتھ مسجد میں بیٹھ کر آپ (ﷺ) کے نکلنے کا انتظار کرلیتے تو ان کے لئے دنیاوی اور اخروی دونوں اعتبار سے بہت بہتر ہوتا۔ حافظ ابن کثیر لکھتے ہیں : علماء کا قول ہے کہ جس طرح آپ (ﷺ) کی زندگی میں آپ کے حضور اونچی آوا زسے بات کرنے کی ممانعت تھی، اسی طرح آپ (ﷺ) کی قبر کے پاس آواز بلند کرنا ممنوع ہے، اس لئے کہ آپ جس طرح زندگی میں واجب الاحترام تھے، مرنے کے بعد اپنی قبر میں بھی واجب الاحترام ہیں۔ امیر المومنین عمر بن خطاب (رض) کے بارے میں روایت ہے کہ انہوں نے مسجد نبوی میں دو آدمی کو اونچی آواز سے بات کرتے سنا، تو ان پر کنکری پھینک کر اپنی طرف متوجہ کیا اور پوچھا کہ تم دونوں کہا کے ہو؟ انہوں نے کہا : ہم طائف کے ہیں، تو عمر (رض) نے کہا کہ اگر تم مدینہ کے ہوتے تو تمہاری پٹائی کردیتا۔